ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

بینظیر بھٹو قتل کیس،سپریم کورٹ نے دھماکہ خیز فیصلہ سنا دیا

datetime 5  اکتوبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(سی پی پی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو قتل کیس میں پولیس افسران کی ضمانت منسوخی کی درخواست مسترد کردی جبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ شک کبھی ثبوت کا متبادل نہیں بن سکتا، آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائیکورٹ کے اختیارات پر قدغن نہیں لگائی جاسکتی،بینظیر بھٹو کی شہادت میرے لیے بھی صدمے کا باعث بنی۔

جب جائے وقوعہ کو دھویا گیا تو میں نے دوستوں سے کہا یہ کیا کر رہے ہیں، بی بی سی کی تحقیقات ہماری ایجنسیوں سے بہتر تھیں۔جمعہ کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے انسداد دہشت گردی عدالت سے سزا پانے والے سابق ایس پی خرم شہزاد اور سابق سی پی او سعود عزیز کی سزاؤں کے باوجود ہائیکورٹ سے ضمانتوں کے خلاف درخواست کی سماعت کی۔ اس دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، وکیل لطیف کھوسہ اور دیگر حکام پیش ہوئے۔دوران سماعت درخواست گزار رشیدہ بی بی کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ ان کی موکلہ انتقال کرچکی ہیں، جس پر وکیل پولیس افسران نے کہا کہ درخواست گزار کے انتقال سے درخواستیں غیر موثر ہوچکی ہیں۔اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے درخواست کو غیر موثر قرار دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ رشیدہ بی بی کے لواحقین نے درخواست دائر کر رکھی ہے اور گزشتہ سماعت پر ان کی بیٹی فریق بن گئی تھی۔عدالت میں دلائل دیتے ہوئے وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ پولیس افسران قتل کی سازش میں ملوث تھے، اس پر جسٹس آصف سعید نے استفسار کیا کہ افسران کے ملوث ہونے کے شواہد کیا ہیں؟لطیف کھوسہ نے بتایا کہ پولیس افسران نے قتل کے شواہد ضائع کیے، اسکاٹ لینڈ یارڈ اور اقوام متحدہ کی ٹیم بھی تحقیقات کرچکی ہے جبکہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں ہائیکورٹ میں زیر التوا ہیں۔

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ انسداد دہشت گردی عدالت کی سزا کے خلاف ضمانت نہیں ہوسکتی، اس پر جسٹس آصف سعید نے استفسار کیا کہ ضمانتیں کس بنیاد پر دی گئیں، آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائیکورٹ کے اختیارات پر قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔دوران سماعت لطیف کھوسہ نے دلائل دیے کہ سی پی او راولپنڈی بننے سے پہلے سعود عزیز آر پی او گجرانوالہ تھے اور بینظیر بھٹو کو حفاظتی حصار دیے جانے کے ذمہ دار سی پی او تھے۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ سعود عزیز نے ایس ایس پی اور دیگر نفری کو بھجوایا جبکہ بینظیر بھٹو کو پوائنٹ بلینک رینج سے گولی ماری گئی۔

انہوں نے بتایا کہ بینظیر بھٹو نے کراچی اترنے سے پہلے کچھ لوگوں کو نامزد کیا جبکہ حکومت کے شریک ملزمان کی بریت کے خلاف اپیلیں دائر کر رکھی ہیں۔عدالت میں انہوں نے دلائل دیے کہ پولیس افسران ایک سال سے ضمانت پر ہیں، ملزمان کو عجلت میں ضمانتیں دی گئی، اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے لطیف کھوسہ سے سوال کیا کہ پولیس افسران کے جیل جانے سے آپ کو کیا ملے گا۔اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ قانون کی بالادستی کا سوال ہے۔

ہائیکورٹ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا اور شک کی بنیاد پر ضمانتیں منسوخ کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ اس خطے کی سب سے اہم رہنما کو بے رحمانی طریقے سے قتل کیا گیا، ٹرائل کورٹ نے اس کو سنجیدہ ہی نہیں لیا جبکہ اسکاٹ لینڈ یارڈ نے ملزمان کو قصور وار ٹھہرایا۔دوران سماعت لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ سب سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کنٹرول کر رہے تھے، اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ فرضی بات ہے، جس پر وکیل نے کہا کہ واقعاتی شہادتوں میں ثبوت موجود ہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ شک کبھی ثبوت کا متبادل نہیں بن سکتا، بینظیر بھٹو کی شہادت میرے لیے بھی صدمے کا باعث بنی، جب جائے وقوعہ کو دھویا گیا تو میں نے دوستوں سے کہا یہ کیا کر رہے ہیں۔اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ کہتے ہیں ملزم عدالت کا لاڈلا بچہ ہوتا ہے، یہ کہہ کہہ کر ہم نے قانون کا بیڑا غرق کردیا ہے، ہائی کورٹ نے اس مقدمے کو ایسے لیا جیسے چوری کا کیس ہو۔وکیل کے دلائل پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فیصلے کے لیے ثبوت درکار ہوتے ہیں۔

اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ جائے وقوعہ کو جان بوجھ کر دھویا گیا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے گئے کہ قتل سے پوری قوم کو صدمہ پہنچا تھا، قوم کا بہت برا نقصان ہوا تھا، ہماری تو ایف آئی آر ہی درج نہیں ہورہی تھی۔اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بی بی سی کی تحقیقات ہماری تحقیقاتی ایجنسیوں سے بہتر تھی۔لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق ہائیکورٹ کو ضمانت دینے کا اختیار نہیں تھا، دہشت گردوں کو فائدہ دینا دہشت گردی کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔

اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کہ رہے ہیں کہ ہائیکورٹ مداخلت کر ہی نہیں سکتی؟ آرٹیکل 199 ان لوگوں کے فائدے کے لیے ہے جن کے پاس دوسرا چارہ نہ ہو۔اس پر لطیف کھوسہ نے دلائل دیے کہ کیا ہم ایک مرتبہ پھر بھٹو قتل کیس کی طرح وعدہ معاف گواہ پر انحصار کریں گے، جس پر آصف سعید کھوسہ نے ہدایت کی کہ آپ قانون اور سیاست کو الگ رکھیں۔بعد ازاں عدالت نے فریقین نے دلائل سننے کے بعد پولیس افسران کی ضمانت کے خلاف درخواست مسترد کر تے ہوئے ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…