آپ کو یاد ہو گا 19 ستمبرکی رات اڈیالہ جیل میں حنیف عباسی کی میاں نواز شریف کے ساتھ تصویر اتری‘ یہ تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور ردعمل میں حنیف عباسی کو راولپنڈی سے اٹک جیل منتقل کر دیا گیا جبکہ سپرنٹنڈنٹ سمیت اڈیالہ جیل کے پانچ اہلکار کا تبادلہ کر دیا گیا‘ یہ فیصلہ یقیناًمیرٹ پر ہوا ہو گا‘ ایک مجرم کو رات کے وقت سیل سے نکال کر سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں لانا‘ میاں نواز شریف کے ساتھ ملاقات کا موقع دینا‘
جیل میں موبائل فون کا پہنچنا‘ تصویر بننا اور پھر اس تصویر کا سوشل میڈیا تک پہنچ جانا‘ یہ سارا عمل غیر قانونی تھا اور حنیف عباسی اور جیل کے عملے کو اس کی سزا ملی‘ میں اس انصاف پر پنجاب حکومت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں لیکن 27 ستمبر کو اس سے ملتا جلتا جرم کوٹ لکھپت جیل لاہور میں بھی ہوا‘ جیل خانہ جات کے صوبائی وزیر زوار حسین نے رات کے وقت جیل کھلوائی‘ جیل کے عملے کو بیرکس کی ڈیوٹی سے ہٹایا‘ انہیں باہر نکالا‘ وائرلیس بند کرائی‘ خطرناک قیدیوں کے سیل کھلوائے اور یہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان خطرناک قیدیوں کے ساتھ گفتگو کرتے رہے‘ کوٹ لکھپت جیل میں اس وقت ایک سو نو خطرناک قیدی بند ہیں‘ ان میں دہشت گرد اور کالعدم تنظیموں کے مجرم بھی شامل ہیں اور 45 غیرملکی بھی‘ وزیر کا یہ قدم پی پی آر 1978ء کے تحت غیر قانونی تھا‘ وزیر کو ایک گارڈ نے روکنے کی کوشش کی لیکن وزیر نے اس گارڈ کو ایک سیل میں بند کر دیا‘ اگر حنیف عباسی کی تصویر اور میاں نواز شریف کے ساتھ ملاقات غیر قانونی تھی تو یہ دورہ بھی غیر قانونی تھا مگر آپ نے حنیف عباسی اور جیل کے پانچ اہلکاروں کو سزا دے دی لیکن آپ نے صوبائی وزیر زوار حسن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی‘ کیا یہ انصاف ہے‘ اگر حنیف عباسی کا ایکٹ غلط تھا تو زوار حسین کا کارنامہ بھی غیر قانونی ہے‘ آپ نے انہیں سزا کیوں نہیں دی‘ میری حکومت سے درخواست ہے آپ اگر قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں تو پھر حنیف عباسی اور زوار حسین دونوں کو ایک آنکھ سے دیکھیں‘
آپ اپنے ایم این اے کرامت کھوکھر اور ایم پی اے ندیم عباس جیسے لوگوں کو منشاء بم جیسے قبضہ گروپوں کی حمایت سے بھی روکیں‘ یہ آدھا انصاف اور یہ آدھا میرٹ ہے‘ میرے کرپٹ اور تیرے کرپٹ کی پالیسی پارٹی اور حکومت دونوں کو کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔ہم آج کے موضوعات کی طرف آتے ہیں‘ حکومت کل سے لاہور میں بھی بڑے پیمانے پر ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کر رہی ہے‘ یہ آپریشن سر آنکھوں پر لیکن آج سپریم کورٹ نے وزیراعظم عمران خان کو مشورہ دیا آپ بھی اپنا گھر جرمانہ ادا کرکے ریگولائز کرا لیں‘ لوگوں کے گھر گرائے جا رہے ہیں لیکن وزیراعظم صرف جرمانہ ادا کرکے ریگولائز کرا لیں‘ کیوں؟ اور پرس چوری کرنے والا بیوروکریٹ معطل ہو گیا لیکن فالودہ بیچنے والے کے اکاؤنٹ میں سوا دوارب روپے جمع کرانے والے گھر میں بیٹھے ہیں‘ کیوں؟ ہم یہ بھی ڈسکس کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔