لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) سابق دور حکومت میں ہونے والے جعلی پولیس مقابلوں اور چہیتے پولیس افسران کی لسٹ تیار کر لی گئی، رپورٹ میں سنسی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں ۔روزنامہ 92 نیوز کے مطابق پنجاب اور سندھ میں سب سے زیادہ جعلی پولیس مقابلے ہوئے ۔ 1372 پولیس مقابلوں میں 380 مشکوک پولیس مقابلے قرار دے دیئے گئے 72 افراد کو سیاسی بنیادوں 103 کو ذاتی مخالفت پر اور 212 افراد کو مال ضبط کرنے کیلئے جعلی پولیس مقابلوں میں مارا گیا ۔
سندھ کے اندر 116 ایسے پولیس مقابلوں کے حوالے سے رپورٹس میں انکشاف ہوا ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ ان مقابلوں میں واضح طور پر ایسی چیزیں سامنے آئی ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ پولیس مقابلے باقاعدہ پلاننگ کے تحت کیے گئے اور ان پولیس مقابلوں میں ہلاک ہونے والے افراد پہلے سے پولیس حراست میں تھے اور انہیں جعلی پولیس مقابلے کر کے مارا گیا تھا ۔ سندھ میں 45 پولیس مقابلے ایسے ہیں جن کے ذریعے سیاسی مخالفین کو مروایا گیا جن میں چار سیاسی شخصیات جعلی پولیس مقابلوں میں ملوث ہونے کے ثبوت ملے ہیں ۔ پنجاب میں 190 پولیس مقابلوں کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان میں سب سے زیادہ جعلی پولیس مقابلے رقم ہڑپ کرنے کیلئے پولیس نے کیئے ان میں ڈاکو وں کے گینگ پکڑ کر ان سے رقم اور سونا بآمد کر کے انہیں پولیس مقابلوں میں مار دیا گیا ۔ رپورٹس میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ سونا پانچ معروف ترین جیولرز کو بھی فروخت کیا گیا جبکہ سترہ پولیس مقابلوں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ان سترہ پولیس مقابلوں میں زمین ہتھیانے کیلئے سیاسی شخصیات کے کہنے پر کروائے گئے جبکہ آٹھ پولیس مقابلے ایسے رپورٹ کیے گئے ہیں کہ یہ پولیس مقابلے سیاسی مخالفین کو مروانے کیلئے کئے گئے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب کے اندر سندھ سے زیادہ پولیس گردی تھی جبکہ بلوچستان اور کے پی کے میں جعلی پولیس مقابلے بھی ہوئے تھے لیکن ان کی تعداد پنجاب اور سندھ سے کم تھی ۔ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ 47 ایسے پولیس افسران آج تک تعینات ہیں جو کہ ہر حکومت میں جعلی پولیس مقابلوں کے ماسٹر ہیں اور ہر حکومت ان کی تعیناتی لازماً کرواتی ہے ۔ ذرائع کے مطابق ان رپورٹس میں دو ارب سے زائد روپے کی رقم پولیس کی جانب سے خورد برد کرنے کے حوالے سے بھی لکھا گیا ہے جب کہ سانحہ ماڈل ٹاون کو بھی ان رپورٹس میں کوڈ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس آپریشن میں بھی پولیس مقابلوں کے اسپیشلسٹ شامل تھے ۔ ذرائع کے مطابق ان رپورٹس کی روشنی میں ان پولیس افسران کے خلاف کارروائی اور ان کی پشت پناہی کرنے والی سیاسی شخصیات پر شکنجہ سخت کرنے کیلئے کام شروع ہو چکاہے ۔