فیصل آباد۔۔۔۔ فیصل آباد الائیڈ اسپتال میں رواں سال علاج کے لیے داخل ہونے والے 14 ہزار بچوں میں سے 2 ہزار بچے جانبر نہ ہوسکے۔ الائیڈ اسپتال فیصل آباد کا سب سے بڑا اسپتال ہے جہاں ناصرف فیصل آباد بلکہ جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، چنیوٹ سمیت دیگر اضلاع سے بچوں کو تشویشناک حالت میں علاج کی غرض سے لایا جاتا ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق الائیڈ اسپتال میں سالانہ 17 ہزار سے زائد بچوں کو علاج کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔بچوں کے 30 بستروں کے وارڈ میں ڈیڑھ سو سے زائد بچے داخل ہیں، جبکہ نرسری میں 20 بچوں کی گنجائش ہے مگر یہاں بھی ستر سے 130 بچے زیر علاج ہیں۔ اسپتال میں بچوں کی اموات کی شرح 15 فیصد سالانہ ہے، یعنی ہر ماہ دو سو سے زائد بچے انتقال کرجاتے ہیں۔ایم ایس الائیڈ اسپتال ڈاکٹر مقبول کا کہنا ہے کہ بچوں کے اموات کی اہم وجہ سہولیات کی کمی نہیں بلکہ بچے تشویشناک حالت میں اسپتال لائے جاتے ہیں۔ ناتجربہ کار اور عطائی ڈاکٹرز کا نشانہ بننے والے بچہ و زچہ ، پیچیدہ پیدائشی بیماریوں میں مبتلا بچے اور تاخیر سے اسپتال آمد بھی بچوں کی اموات میں اضافے کا باعث ہے۔ایم ایس الائیڈ ہسپتال راشد مقبول کہتے ہیں کہ جو بچے ہمارے پاس آتے ہیں وہ انتہائی تشویشناک حالت میں اتے ہیں جو جھنگ سے بچہ چلتا ہیوہ سیریس حالت میں ہوتا ہے کئی دفعہ تو یہاں پہنچتا بھی نہیں ہے ایسے پہنچ جائیں تو ادھے گھنٹے میں انکی موت واقعہ ہو جاتی ہے اور باقی جو بچے پیدایشی نقائص کے ساتھ آتے ہیں اور دوسرے مسائل جو ہوتے ہیں یا پرائیوٹ ہسپتال میں کسی بچے کی ڈیتھ نہیں ہوتی، بچہ مرنے لگے تو ہمارے پاس بھیج دیتے ہیں۔انچارچ بچہ وارڈ ڈاکٹر اصضر بٹ کہتے ہیں کہ صرف فیصل آباد کے ہی لوگ نہیں آتے ہمارے پاس شاہکوٹ ،جھنگ ٹوبی ٹیک سنگھ چینوٹ یہ سارے ڈسٹرکٹ کو ہم ڈیل کرتے ہیں شہباز شریف کی پالیسی کی وجہ سے ہم لوگوں کو انکار نہیں کرتے جو ہمارے بس میں ہے ہم اپنی بساط سے زیادہ لوگوں کو ٹریٹ کرتے ہیں۔الائیڈ اسپتال کے بچہ وارڈ میں 8 وینٹی لیٹر ز میں سے چھ جبکہ پانچ انکیوبیٹر ز میں سے چار کام کر رہے ہیں۔ زیر علاج بچوں کی تعداد کے مطابق اسپتال میں بارہ وینٹی لیٹر زاور بیس انکیوبیڑز کی ضرورت ہے جبکہ بچوں کی نرسری کے لیے بھی عمارت میں توسیع ضروری ہے۔جس کے لیے اسپتال انتطامیہ کا کہنا ہے کہ بچہ وارڈ کہ توسیع منصوبے پر کام جاری ہے جو کہ جلد مکمل کر لیا جائے گا۔