اسلام آباد(نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ نے گیس اور پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس سے متعلق کیس میں نیب کی جانب سے 3 ہفتے مہلت کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ایل این جی معاہدے سے متعلق زیر التواء انکوائریز کی رپورٹ طلب کر لی۔ عدالت نے پٹرولیم کو آڈٹ رپورٹ کے مطابق عملدرآمد کر کے رپورٹ پیش کرنے اور پی ایس او بورڈ سے ایل این جی معاہدے سے متعلق 10 دن میں رپورٹ طلب کر لی۔
جمعہ کو سپریم کورٹ میں گیس اور پٹرولیم مصنوعات سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کی۔ سپریم کورٹ نے وزیر پٹرولیم غلام سرور خان کو طلب کر لیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پی ایس او نے پٹرولیم کی قیمتوں میں کردار نہیں تو ہھاری قیمتیں کیوں دی جا رہی ہیں؟ پی ایس او کا سابق ایم ڈی 37 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لے رہا تھا۔ قیمتوں میں تعین کا کام نہیں تو ایم ڈی اور جی ایم پی ایس او تعیناتی کیوں کی گئی؟ ۔ سپریم کورٹ نے نیب کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ معاملے کی تحقیقات کیلئے نیب نے عدالت سے وقت مانگ لیا۔ وکیل پی ایس او نے بتایا کہ پی ایس او کے ایم ڈی 31 اگست کو ریٹائرڈ ہو گئے ۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ احتساب عدالت میں قابل ججز کو لگایا جائے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شاہد خاقان عباسی نے سابق ایم ڈی پی ایس او کی تعیناتی کس طرح کی؟ ہمیں معلوم ہے کہ ایسی تقرریاں اقرباء پروری کی بنیاد پر کی جاتی ہیں۔ فیصلہ دے چکے ہیں کہ سرکاری ادارے کی طرف سے کوئی کیل پیش نہیں ہو گا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ سرکاری اداروں کی طرف سے اٹارنی جنرلز اور ایڈووکیٹ جنرلز کو پیش ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایم ڈی پی ایس او ارسطو ہیں انہیں کس نے تعینا ت کیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ تمام منیجرز لاکھوں میں تنخواہ لے رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سب کو بلا لیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا بتائیں پی ایس او والوں کے پاس کتنی گاڑیاں ہیں؟۔ ہر ایک کے پاس فور بائی فور ہوں گی ۔ شاید بلٹ پروف بھی ہوں۔ ہمیں کفایت شعاری کے ساتھ چلنا ہے غیر ترقیاتی اخراجات کیوں بڑھائے گئے۔ عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے مکالمہ کیا کہ نچلے طبقے کو چھو ڑیں ایسے لوگوں کو پکڑیں ۔ سپریم کورٹ نے پی ایس او بورڈ سے
ایل این جی معاہدے سے متعلق رپورٹ طلب کر لی۔ عدالت نے ریمارکس دئیے کہ بتایا جائے کہ قطر سے معاہدہ کرتے شفافیت کو مد نظر رکھا گیا یا نہیں ‘ عوام میں بحث چل رہی ہے کہ قطر سے کیا گیا معاہدے میں شفافیت نہیں برتی گئی۔ عدالت نے نیب سے بھی ایل این جی معاہدے سے متعلق زیر التواء انکوائریز کی رپورٹ طلب کر لی۔ عدالت نے پی ایس او کے اندر اقرباء پروری اور سفارش پر کی گئی
بھرتیوں کی بھی رپورٹ طلب کر لی۔ سپریم کورٹ نے وزیر پٹرولیم کو آڈٹ رپورٹ کے مطابق عملدرآمد کر کے رپورٹ دینے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ بھاری تنخواہوں پر عوامی پیسے کو لوٹنے کیلئے من پسند افراد کو لگایا گیا۔ سپریم کورٹ نے نیب کی جانب سے 3 ہفتے کی مہلت کی استدعا مسترد کر دی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہاکہ نیب کی تحقیقات میں کوئی غفلت نہیں ہونی چاہیے۔
وزیر پٹرولیم غلام سرور خان نے عدالت میں بتایا کہ ایل این جی معاہدہ بادی النظر میں شفاف نہیں تھا۔ عدالت نے پی ایس او کی سابق انتظامیہ کی جانب سے بھرتیوں کے جائزہ کا حکم دیتے ہوئے پی ایس او بورڈ سے ایل این جی معاہدے سے متعلق 10 روز میں رپورٹ طلب کر لی۔دوران سماعت سپریم کورٹ نے نیب کی کارکردگی پربھی سوالات اٹھا دیئے اورچیئرمین نیب کوچیمبرمیں طلب کرلیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نیب کوعدالت نے بہت سپورٹ کیا ہے، نیب سوائے آنے جانے کے کرہی کیا رہا ہے؟، نیب کوئی ایک کیس بتائے جومنطقی انجام تک پہنچایا ہو، فواد حسن فواد اور احد چیمہ کی گرفتاری سے کیا نتیجہ نکلا؟ قوم کوعلم ہونا چاہیے خلاف ضابطہ تقرری کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوا؟ نیب سے صرف تحقیقات کرنے اورریفرنس دائرکرنے کی خبرآتی ہے، کیا نیب کا گند اب عدالت کو صاف کرنا ہے؟ نیب سے نتائج درکارہیں، نیب کا ڈھانچہ تبدیل کرنا ہوگا۔