خواتین وحضرات ۔۔ ہیری ایس ٹرومین امریکا کے تینتیسویں صدر تھے‘ یہ جب انیس سو پین تالیس میں صدر بنے تو (انہوں) نے اپنی میز پر ایک تختی رکھ دی‘ تختی پر لکھا تھا‘ دا بک سٹاپس ہیئر‘ یہ انگریزی (زبان) کی ایک ٹرم پاس دا بک کا جواب تھا‘ (حکمران) عموماً اپنی غلطیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈالتے ہیں‘ ملبے ڈالنے کے ۔۔اس عمل کو انگریزی میں پاس دا بک کہا جاتا ہے‘ صدر ٹرومین نے دا بک سٹاپس ہیئر لکھ کر اپنے آپ اور اپنے سٹاف کو یہ پیغام دیا ’’میں صدر ہوں اور
حکومت کے ہر فیصلے کا ۔۔ذمہ دار میں ہوں‘‘ صدر ٹرومین ہر تقرری‘ ہر فیصلے سے پہلے تختی دیکھتے تھے اور پھر اپنے آپ سے پوچھتے تھے ٹرومین کیا تم یہ ذمہ داری (اٹھا) سکتے ہو اور (اس) کے بعد دستخط کر دیتے تھے۔ ملک میں ۔۔اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ خواہ زلفی (بخاری) کا تقرر ہو‘ نعیم الحق کوسیاسی امور کا معاون خصوصی بنانا ہو‘ عون چودھری جیسے ذاتی (ملازم) کو وزیراعلیٰ پنجاب کا مشیر لگانا ہو‘ فیاض الحسن چوہان کی خوبصورت گفتگو ہو‘ مراد سعید جیسے جعلی ڈگری ہولڈر کو سٹیٹ منسٹر بنانا ہو یا پھر پنجاب جیسا گیارہ کروڑ لوگوں کا صوبہ عثمان بزدار جیسے ناتجربہ کار اور اعتماد اور تعلیم سے محروم شخص کے حوالے کرنا ہو ۔۔اس کی ذمہ داری بہرحال عمران خان پر ہی عائد ہو گی‘ ذمہ داریوں کا یہ بک وزیراعظم کی میز پر ہی آ کر رکے گا‘ آپ ماضی کو چھوڑ دیجئے‘ وزیراطلاعات فواد چودھری نے 25 ستمبرکو کہا تھا کہ ریڈیو پاکستان کی عمارت کو لیز پر دے دیاجائے گا لیکن آج جب ریڈیو پاکستان کے 700ملازمین سڑک پر نکلے ۔۔انہوں نے نعرے لگائے اور حکومت نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا‘وہ حکومت جو صرف 7سو لوگوں کا دباؤ برداشت نہیں کر سکی‘ وہ احتساب‘ انصاف‘ میرٹ اور کشکول توڑنے کے بڑے بڑے وعدوں پر کیسے عمل کرے گی لہٰذا میرا مشورہ ہے وزیراعظم کو مستقبل میں کوئی بھی فیصلہ کرنا سے پہلے یہ جان لینا چاہیے اس وقت ماضی کے دو صدر اور چار وزیراعظم عدالتوں میں دھکے کھا رہے ہیں‘
آپ بھی احتیاط کے ساتھ چلیں‘ یہ نہ ہو جائے آپ بھی عدالتوں کے دھکے کھانے والے وزراء اعظم میں شامل ہو جائیں‘ آپ بھی غیر قانونی تقرریوں‘ ماڈل ٹاؤن جیسے کسی سانحے یا پھر کسی دوسرے کی کرپشن کا حساب دینے پر مجبور ہو جائیں چنانچہ احتیاط سے چلیں اور ٹھیک فیصلے کریں‘ آپ بک کو پاس نہیں کر سکیں گے۔
ہم آج کے موضوعات کی طرف آتے ہیں ،شہبازشریف نے زرداری سے کسی قسم کی درخواست دینے کی تردید کردی، دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے
چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ کہ کشکول توڑنے کے دعوے کرنے والوں نے کشکول اٹھا کر اپنے دور کا آغاز کیا ٗسلیکٹڈ وزیراعظم نے ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکلات پیدا ہو رہی ہیں ٗ بتایا جائے کشمیر کا مسئلہ اٹھانے کے لیے وزیراعظم خود اقوام متحدہ کیوں نہیں گئے؟صرف سوشل میڈیا پر خارجہ پالیسی کے بیان جاری ہو رہے ہیں، خدارا خارجہ پالیسی جیسے اہم شعبے کو مذاق نہ بنایا جائے نہ شہید بھٹو کو انصاف ملا اور نہ ہی بے نظیر بھٹو کو انصاف ملا ٗپیپلز پارٹی جلاؤ گھیراو کی سیاست کر کے ملک کو خطرے میں نہیں ڈال سکتی۔ ہم آج کے پروگرام میں یہ تمام ایشوز ڈسکس کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔