اسلام آباد (نیوز ڈیسک) وزیراعظم عمران خان اور پاک آرمی کا ایک ہونا بھارت کے لیے دو دھاری تلوار ثابت ہو سکتا ہے، یہ الفاظ ایک موقر قومی اخبار کی رپورٹ میں کہے گئے ہیں، انڈین ایکسپریس فورم میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان میں تعیناتی کے بعد بھارتی دارالحکومت کے کیبنٹ سیکرٹریٹ سے ریٹائرڈ ہونے والے بھارتی ماہر اور مصنف تلک دیوا شیر نے مختلف سوالوں کے جواب دیے۔
جب بھارتی ماہر سے سوال پوچھا گیا کہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے وزیراعظم چنا گیا ہے تو اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ 2002ء میں عمران خان پرویز مشرف کی حکومت میں شامل ہونے کا سوچ رہے تھے، عمران خان اور صدر مشرف کے درمیان چند خفیہ ملاقاتیں بھی ہوئیں لیکن عمران خان یہ سوچ کر پیچھے ہٹ گئے کہ مشرف کی کابینہ بد عنوانیوں سے بھری پڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس موقع پر پرویز مشرف نے عمران خان کو دھمکایا کہ حکومت میں شامل نہ ہونے کی صورت میں نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ جس کے نتیجے میں آئندہ انتخابات میں عمران خان کو ایک نشست ملی، انہوں نے کہاکہ اس وقت عمران خان کو اندازہ ہوا کہ وزیراعظم بننے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سمجھوتہ کرنا ضروری ہے۔ بھارتی معروف مصنف نے کہا کہ پاک فوج نواز شریف کو اقتدار میں دوبارہ نہیں دیکھنا چاہتی تھی اور آصف زرداری نے فوج کے خلاف سخت بیانات دیے تھے اور پیپلز پارٹی کی پنجاب میں موجودگی بھی نہیں تھی۔ اس صورت میں صرف عمران خان ہی واحد آپشن تھے، معروف مصنف نے کہا کہ کم از کم عمران خان کو دو سال تک کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج اور وزیراعظم عمران خان کا ایک پیج پر ہونا بھارت سے تعلقات معمول پر لانے کے لیے ہے۔