اسلام آباد(این این آئی ) چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ جن لوگوں کو گلگت بلتستان کے لوگوں کی حب الوطنی پر شک ہے وہ میرے ساتھ گلگت بلتستان چلیں،خود دکھاؤں گا کہ وہاں کے لوگوں کے دلوں میں پاکستان کیلئے کتنی محبت ہے،کوشش ہے گلگت بلتستان کے لوگوں کو وہی حقوق ملیں جو باقی صوبوں کے لوگوں کو حاصل ہیں۔
وہاں کے لوگوں کی دلوں میں پاکستان سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے،گلگت بلتستان کے لوگوں نے بھی پاکستان کیلئے جنگیں لڑیں، ہر جنگ میں پاکستان کے لئے قربانیاں دی ہیں۔منگل کو سپریم کورٹ میں گلگت بلتستان کے آئینی ،بنیادی حقوق اور عدلیہ کے دائرہ اختیار سے متعلق ڈاکٹر غلام عباس اور گلگت بلتستان بار کونسل کی دائر کردہ درخواست پر کیس کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل انور منصور نے عدالت کو بتایا کہ میرے پاس کچھ دستاویزات ہیں، وہ دستاویزات اوپن کورٹ میں نہیں رکھ سکتا، اس لئے اگر اجازت دیں تو چیمبر میں وہ دستاویزات آ پ کو دکھا سکتا ہوں،آج دستاویزات چیمبر میں دیکھ لیں کل مقدمہ سماعت کیلئے رکھ لیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کے لوگ لاہور کے لوگوں سے زیادہ پاکستان سے پیار کرتے ہیں ٗکارگل جنگ کے دوران گلگت بلتستان کے لوگ فرنٹ پر تھے، کارگل جنگ میں گلگت بلتستان والوں کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے ، عدالتی معاونین کو سننے کے بعد فیصلہ دیں گے، اگر لارجر بینچ بنانا ہے تو بتا دیں،لارجر بینچ کی بات آرڈر میں شامل نہیں کرتے تاہم میں لارجر بینچ کا معاملہ خود دیکھ لوں گا،اس کیس کیلئے اگر دوسرے کیسز ملتوی بھی کرنے پڑے تو کر لیں گے۔میاں ثاقب نثار نے کہا کہ عدالت نے گلگت بلتستان کی عدلیہ کے دائرہ اختیار کو دیکھنا ہے ۔
دیکھنا ہے کہ گلگت بلتستان کی عدلیہ کو کس حد تک اختیارات حاصل ہیں، گلگت بلتستان کے ہر پہاڑ اور پتھر پر پاکستان کا نام لکھا ہوا ہے ٗوہاں کے لوگوں کے دلوں میں پاکستان کیلئے بے پناہ محبت ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ الجہاد ٹرسٹ 1999 کے فیصلے پر عملدرآمد کرایا جائے۔سینئر قانون دان اور عدالتی معاون بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ عدالت کو اٹھارہویں ترمیم میں دیئے گئے فیصلے جیسا فیصلہ دینا پڑیگا ٗگلگت بلتستان میں اکثر اسی وجہ سے پڑوسیوں کی دخل اندازی بھی نظر آتی ہے ۔
جو دستاویزات اٹارنی جنرل دکھانا چاہتے ہیں وہ ہمیں بھی چیمبر میں دکھائی جائیں۔ عدالت نے اٹارنی جنرل اور وکلاء کی درخواست پر کیس کی سماعت 9 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔بعد ازاں میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے سماجی رہنماء ڈاکٹر غلام عباس نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کی عوام ستر سال سے محرومی کا شکار ہیں اور آج اس اہم کیس میں ایک امید نظر آئی تھی مگر اٹارنی جنرل نے معمول کی طرح اس بار بھی کیس کو التواء کی طرف دھکیل دیا،1999 سے آج تک ہر بار اس کیس میں اسی طرح کے تاخیری حربوں سے کیس کو التواء کی طرف لیجا یا جاتا رہا ہے۔
ڈاکٹر عباس نے کہا کہ ہم گلگت سے ہر باراخراجات برداشت کر کے کے آتے ہیں مگر عدالت میں آنے کے بعد وکلاء اور اٹارنی جنرل سمیت دیگر کیس کو التواء کی طرف دھکیل دیتے ہیں جس کی وجہ سے گلگت بلتستان کی عوام ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، گلگت بلتستان کی عوام کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار سے امیدیں وابستہ ہیں اور وہاں کی عوام انہیں اپنی آخری امید سمجھتے ہیں۔اس موقع پر تحریک انصاف کے رہنما و ایڈوکیٹ فدا حسین عباسی نے کہا کہ گلگت بلتستان کے مظلوم عوام نے تمام سیاسی جماعتوں سے مایوس ہو کر اب عدالت سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں، چیف جسٹس اور سپریم کورٹ سے اپیل کرتے ہیں کہ ہماری ستر سالہ محرومیوں کا ازالہ کرے اور گلگت بلتستان کو بنیادی حقوق فراہم کیے جائیں۔