پیر‬‮ ، 10 ‬‮نومبر‬‮ 2025 

ہم پوری اسلامی دنیا میں ثالثی کرانے کیلئے تیار بیٹھے ہیں لیکن ہمارے پاس پاکستانی مسلمانوں کو پاکستانی مسلمانوں کے ساتھ بٹھانے کیلئے وقت نہیں‘ کیوں؟ریاست اور سیاسی جماعتوں نے مذہبی اختلافات کو علماء کرام اور عوام پر کیوں چھوڑ رکھا ہے‘ حکومت اور سیاستدان اس ایشو سے کیوں غائب ہیں؟ جاوید چودھری کا تجزیہ

datetime 20  ستمبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

وزیراعظم خان نے کل سعودی عرب کے العربیہ انگلش ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم پوری مسلم امہ‘ تمام مخالف مسلمان ملکوں کو آپس میں جوڑنا چاہتے ہیں‘ ہم اسلامی دنیا کو ایک میز پر بٹھانا چاہتے ہیں‘ ہم ان کے اختلافات ختم کر کے ان میں اتحاد پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے ملک کے اندر ہماری صورتحال کیا ہے؟ ہمارے وزیراعظم اور ہماری سیاسی جماعتوں کے قائدین نے کبھی یہ سوچا‘ مسلمان مسلمان کو 70 سال سے کافر قرار دے رہے ہیں‘ ایک مسلمان دوسرے مسلمان فرقے کی مسجد اور

امام بارگاہ میں نماز نہیں پڑھتا‘ یہ دوسرے مسلک کے امام کو امام نہیں مانتا‘ ہمارے ملک میں ہر سال سینکڑوں لوگ مذہبی اختلافات کی بنیاد پر قتل کر دیئے جاتے ہیں‘ بارہ ربیع الاول ہو یا پھر محرم عوام کو ریاست بچانے کیلئے ڈبل سواری پر پابندی اور موبائل فون بند کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے‘ پولیس اور رینجرز کی چھٹیاں ختم کر دی جاتی ہیں اور فوج کو بلا لیا جاتا ہے‘ ہم ستر برسوں میں پاکستانی مسلمانوں میں اتحاد قائم نہیں کر سکے‘ ہم انہیں اکٹھا نہیں بٹھا سکے‘ ہم نے سعودی عرب اور ایران کے اختلافات خاک ختم کرنے ہیں‘ ہم نے شام‘ فلسطین‘ افغانستان اور قطر کو خاک اکٹھا بٹھانا ہے‘ ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پر بنایا تھا لیکن آج ہم اسلام کے نام پر ہی ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہیں‘ آج کے انڈیا میں مسلمان کافروں سے محفوظ ہیں لیکن پاکستان میں مسلمان مسلمان کے ہاتھوں محفوظ نہیں‘ کیوں؟ ہم پوری اسلامی دنیا میں ثالثی کرانے کیلئے تیار بیٹھے ہیں لیکن ہمارے پاس پاکستانی مسلمانوں کو پاکستانی مسلمانوں کے ساتھ بٹھانے کیلئے وقت نہیں‘ کیوں؟ اور ہماری تمام سیاسی جماعتیں الیکشنوں میں معیشت‘ بے روزگار‘ بجلی‘ گیس‘ ڈیمز‘ صحت‘ تعلیم‘ صنعت حتیٰ کہ سپورٹس تک کیلئے لائحہ عمل جاری کرتی ہیں لیکن ان میں سے کوئی پارٹی ملک میں مذہبی رواداری‘ مسلکی اختلافات کے خاتمے اور محرم اور ربیع الاول پرامن کے قیام پر

کوئی لائحہ عمل نہیں دیتی‘ کیوں؟ ریاست اور سیاسی جماعتوں نے مذہبی اختلافات کو علماء کرام اور عوام پر کیوں چھوڑ رکھا ہے‘ حکومت اور سیاستدان اس ایشو سے کیوں غائب ہیں‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا اور میں سمجھتا ہوں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ کا یوم شہادت مذہبی رواداری پیدا کرنے کیلئے بہترین دن ہے کیونکہ امام حسین رضی اللہ کسی ایک فرقے بلکہ کسی ایک مذہب یا ملک کے نہیں تھے‘ یہ پوری انسانیت کے لیڈر تھے اور ہم اگر ان کے یوم شہادت پر اس ملک میں رواداری پیدا نہیں کر سکتے تو پھر ہم کبھی مسلمان کو مسلمان کے ساتھ نہیں بٹھا سکیں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



ایکسپریس کے بعد(پہلا حصہ)


یہ سفر 1993ء میں شروع ہوا تھا۔ میں اس زمانے میں…

آئوٹ آف سلیبس

لاہور میں فلموں کے عروج کے زمانے میں ایک سینما…

دنیا کا انوکھا علاج

نارمن کزنز (cousins) کے ساتھ 1964ء میں عجیب واقعہ پیش…

عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟

میرا موبائل اکثر ہینگ ہو جاتا ہے‘ یہ چلتے چلتے…

خود کو ری سیٹ کریں

عدیل اکبر اسلام آباد پولیس میں ایس پی تھے‘ 2017ء…

بھکاریوں سے جان چھڑائیں

سینیٹرویسنتے سپین کے تاریخی شہر غرناطہ سے تعلق…

سیریس پاکستان

گائوں کے مولوی صاحب نے کسی چور کو مسجد میں پناہ…

کنفیوز پاکستان

افغانستان میں طالبان حکومت کا مقصد امن تھا‘…

آرتھرپائول

آرتھر پائول امریکن تھا‘ اکائونٹس‘ بجٹ اور آفس…

یونیورسٹی آف نبراسکا

افغان فطرتاً حملے کے ایکسپرٹ ہیں‘ یہ حملہ کریں…

افغانستان

لاہور میں میرے ایک دوست تھے‘ وہ افغانستان سے…