پیر‬‮ ، 04 اگست‬‮ 2025 

ڈی پی او پاکپتن کا تنازعہ اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف منظم مہم کا آغاز، کتنے پولیس افسران نے باقاعدہ طور پر ن لیگ سے مدد حاصل کی؟ حساس ادارے کے افسر کا نام کس کے کہنے پر لیا گیا؟ سنسنی خیز انکشافات

datetime 1  ستمبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور (نیوز ڈیسک) ڈی پی او پاکپتن کا تنازعہ اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف منظم مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے اور انہیں ن لیگ کے میڈیا سیل کی حمایت بھی حاصل ہو گی۔ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے لیے پانچ پولیس افسران نے ن لیگ کے میڈیا سیل کی مدد حاصل کر لی ہے اور سب سے پہلے اس واقعے کو سوشل میڈیا پر انہی اکاؤنٹس اور مختلف پیجز سے شیئر کیا گیا، جہاں سے پہلے تحریک انصاف اور اہم اداروں کے خلاف مہم چلائی جاتی تھی۔

ایک موقر قومی اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق لیگی حکومت کے حق میں بھی مہم انہی پیجز سے چلتی تھی، ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ ہوا، اس نے پولیس کے اندر باقاعدہ ا یک گروپ بنا رکھا ہے اور اس گروپ میں کئی اعلیٰ افسران شامل ہیں اور حکومت کے خلاف مہم چلانے سے قبل اس گروپ میں باقاعدہ اس معاملے پر بات چیت بھی کی گئی، حکومت کے خلاف اس مہم کا آغاز اہم سیاسی شخصیات کو اعتماد میں لینے کے بعد کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ڈی پی او رضوان گوندل نے سپریم کورٹ میں ایک حساس ادارے کے افسر اور ایک اعلیٰ پولیس افسر جو پاکستان سے باہر ہیں، ان دونوں کا نام بھی جان بوجھ کر کسی کے کہنے پر لیا تاکہ اداروں کو بدنام کیا جا سکے، رپورٹ کے مطابق ان کی جانب سے دیے گئے بیان حلفی میں کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں کہ انہیں کسی حساس ادارے کے افسر نے فون کیا تھا۔ موقر قومی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈی پی او رضوان گوندل کا سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے سامنے دیا گیا بیان واضح طور پر کسی کی ہدایت یا سازش کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک اعلیٰ پولیس افسر کا کہنا ہے کہ پاکپتن پولیس کو علم تھا کہ یہاں بشریٰ بی بی کے بچے رہتے ہیں جن کی سکیورٹی ضروری ہے، اعلیٰ پولیس افسر کے مطابق جن پولیس اہلکاروں نے یہ سب کچھ کیا انہیں دفتر بلا کر باقاعدہ شاباش دی گئی اور

پولیس نے ان دونوں واقعات کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی ضائع کر دی۔ موقر قومی اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اس تمام واقعے کے اندر دو ایم این ایز، ایک سابق آ ئی جی اور ضلع سے باہر کی پولیس نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ خاتون اول بشریٰ بی بی کے کسی انکوائری رپورٹ میں معاملے میں ملوث ہونے یا سفارش کے شواہد نہیں ملے۔ سابق حکومت کے دو وزراء نے اس معاملے کو اٹھایا، کس کس پولیس افسر سے ان وزراء کے رابطے تھے اس حوالے سے تمام ثبوت اہم ادارے کے پاس موجود ہیں۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



سات سچائیاں


وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…