ہفتہ‬‮ ، 12 جولائی‬‮ 2025 

ڈی پی او پاکپتن کا تنازعہ اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف منظم مہم کا آغاز، کتنے پولیس افسران نے باقاعدہ طور پر ن لیگ سے مدد حاصل کی؟ حساس ادارے کے افسر کا نام کس کے کہنے پر لیا گیا؟ سنسنی خیز انکشافات

datetime 1  ستمبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور (نیوز ڈیسک) ڈی پی او پاکپتن کا تنازعہ اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف منظم مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے اور انہیں ن لیگ کے میڈیا سیل کی حمایت بھی حاصل ہو گی۔ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے لیے پانچ پولیس افسران نے ن لیگ کے میڈیا سیل کی مدد حاصل کر لی ہے اور سب سے پہلے اس واقعے کو سوشل میڈیا پر انہی اکاؤنٹس اور مختلف پیجز سے شیئر کیا گیا،

جہاں سے پہلے تحریک انصاف اور اہم اداروں کے خلاف مہم چلائی جاتی تھی۔ ایک موقر قومی اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق لیگی حکومت کے حق میں بھی مہم انہی پیجز سے چلتی تھی، ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ ہوا، اس نے پولیس کے اندر باقاعدہ ا یک گروپ بنا رکھا ہے اور اس گروپ میں کئی اعلیٰ افسران شامل ہیں اور حکومت کے خلاف مہم چلانے سے قبل اس گروپ میں باقاعدہ اس معاملے پر بات چیت بھی کی گئی، حکومت کے خلاف اس مہم کا آغاز اہم سیاسی شخصیات کو اعتماد میں لینے کے بعد کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ڈی پی او رضوان گوندل نے سپریم کورٹ میں ایک حساس ادارے کے افسر اور ایک اعلیٰ پولیس افسر جو پاکستان سے باہر ہیں، ان دونوں کا نام بھی جان بوجھ کر کسی کے کہنے پر لیا تاکہ اداروں کو بدنام کیا جا سکے، رپورٹ کے مطابق ان کی جانب سے دیے گئے بیان حلفی میں کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں کہ انہیں کسی حساس ادارے کے افسر نے فون کیا تھا۔ موقر قومی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈی پی او رضوان گوندل کا سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے سامنے دیا گیا بیان واضح طور پر کسی کی ہدایت یا سازش کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک اعلیٰ پولیس افسر کا کہنا ہے کہ پاکپتن پولیس کو علم تھا کہ یہاں بشریٰ بی بی کے بچے رہتے ہیں جن کی سکیورٹی ضروری ہے، اعلیٰ پولیس افسر کے مطابق جن پولیس اہلکاروں نے یہ سب کچھ کیا انہیں دفتر بلا کر باقاعدہ شاباش دی گئی اور پولیس نے ان دونوں واقعات کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی ضائع کر دی۔

موقر قومی اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اس تمام واقعے کے اندر دو ایم این ایز، ایک سابق آ ئی جی اور ضلع سے باہر کی پولیس نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ خاتون اول بشریٰ بی بی کے کسی انکوائری رپورٹ میں معاملے میں ملوث ہونے یا سفارش کے شواہد نہیں ملے۔ سابق حکومت کے دو وزراء نے اس معاملے کو اٹھایا، کس کس پولیس افسر سے ان وزراء کے رابطے تھے اس حوالے سے تمام ثبوت اہم ادارے کے پاس موجود ہیں۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



کان پکڑ لیں


ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…