ڈی پی او پاکپتن کا تنازعہ اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف منظم مہم کا آغاز، کتنے پولیس افسران نے باقاعدہ طور پر ن لیگ سے مدد حاصل کی؟ حساس ادارے کے افسر کا نام کس کے کہنے پر لیا گیا؟ سنسنی خیز انکشافات

1  ستمبر‬‮  2018

لاہور (نیوز ڈیسک) ڈی پی او پاکپتن کا تنازعہ اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف منظم مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے اور انہیں ن لیگ کے میڈیا سیل کی حمایت بھی حاصل ہو گی۔ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے لیے پانچ پولیس افسران نے ن لیگ کے میڈیا سیل کی مدد حاصل کر لی ہے اور سب سے پہلے اس واقعے کو سوشل میڈیا پر انہی اکاؤنٹس اور مختلف پیجز سے شیئر کیا گیا،

جہاں سے پہلے تحریک انصاف اور اہم اداروں کے خلاف مہم چلائی جاتی تھی۔ ایک موقر قومی اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق لیگی حکومت کے حق میں بھی مہم انہی پیجز سے چلتی تھی، ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ ہوا، اس نے پولیس کے اندر باقاعدہ ا یک گروپ بنا رکھا ہے اور اس گروپ میں کئی اعلیٰ افسران شامل ہیں اور حکومت کے خلاف مہم چلانے سے قبل اس گروپ میں باقاعدہ اس معاملے پر بات چیت بھی کی گئی، حکومت کے خلاف اس مہم کا آغاز اہم سیاسی شخصیات کو اعتماد میں لینے کے بعد کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ڈی پی او رضوان گوندل نے سپریم کورٹ میں ایک حساس ادارے کے افسر اور ایک اعلیٰ پولیس افسر جو پاکستان سے باہر ہیں، ان دونوں کا نام بھی جان بوجھ کر کسی کے کہنے پر لیا تاکہ اداروں کو بدنام کیا جا سکے، رپورٹ کے مطابق ان کی جانب سے دیے گئے بیان حلفی میں کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں کہ انہیں کسی حساس ادارے کے افسر نے فون کیا تھا۔ موقر قومی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈی پی او رضوان گوندل کا سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے سامنے دیا گیا بیان واضح طور پر کسی کی ہدایت یا سازش کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک اعلیٰ پولیس افسر کا کہنا ہے کہ پاکپتن پولیس کو علم تھا کہ یہاں بشریٰ بی بی کے بچے رہتے ہیں جن کی سکیورٹی ضروری ہے، اعلیٰ پولیس افسر کے مطابق جن پولیس اہلکاروں نے یہ سب کچھ کیا انہیں دفتر بلا کر باقاعدہ شاباش دی گئی اور پولیس نے ان دونوں واقعات کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی ضائع کر دی۔

موقر قومی اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اس تمام واقعے کے اندر دو ایم این ایز، ایک سابق آ ئی جی اور ضلع سے باہر کی پولیس نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ خاتون اول بشریٰ بی بی کے کسی انکوائری رپورٹ میں معاملے میں ملوث ہونے یا سفارش کے شواہد نہیں ملے۔ سابق حکومت کے دو وزراء نے اس معاملے کو اٹھایا، کس کس پولیس افسر سے ان وزراء کے رابطے تھے اس حوالے سے تمام ثبوت اہم ادارے کے پاس موجود ہیں۔

موضوعات:



کالم



ریاست کو کیا کرنا چاہیے؟


عثمانی بادشاہ سلطان سلیمان کے دور میں ایک بار…

ناکارہ اور مفلوج قوم

پروفیسر سٹیوارٹ (Ralph Randles Stewart) باٹنی میں دنیا…

Javed Chaudhry Today's Column
Javed Chaudhry Today's Column
زندگی کا کھویا ہوا سرا

Read Javed Chaudhry Today’s Column Zero Point ڈاکٹر ہرمن بورہیو…

عمران خان
عمران خان
ضد کے شکار عمران خان

’’ہمارا عمران خان جیت گیا‘ فوج کو اس کے مقابلے…

بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟

’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…