لاہور( این این آئی )نگران وزیر اطلاعات و قانون بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ الیکشن کے دن ڈیوٹی پر تعینات فوجی افسران کو مجسٹریٹ کے اختیارات دینے کا قانون خود پارلیمان نے بنایا تھا،الیکشن کمیشن نے ملک میں کروڑوں ووٹرز اور لاکھوں پولنگ اسٹیشنز کی حفاظت کے لیے مدد مانگی جس پر ساڑھے چار لاکھ پولیس اہلکار اور تین لاکھ فوجی پولنگ کے دن ملک بھر میں تعینات ہوں گے۔بی بی سی کو انٹر ویو میں انہوں نے کہا کہ
یا تو پارلیمان یہ قانون ہی نہ بناتا اور الیکشن کمیشن کو یہ اختیار ہی نہ دیتا اب جب پارلیمان نے خود یہ قانون بنایا اور اختیار دیا ہے تو مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ کچھ اراکین پارلیمان کیوں اعتراض کر رہے کہ یہ اختیار کیوں دئیے گئے ہیں؟۔یہ قومی ایشو ہے، اس پر الزام تراشی کی ضرورت نہیں ۔انہوں نے کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 میں سیکشن 193 کے تحت پارلیمان نے الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ مجسٹریٹ کے اختیارات بطور انچارج نامزد فوجی افسران کو دے سکتا ہے یہ اختیارات پچھلے انتخابات میں بھی دئیے گئے تھے۔اس سوال پر کیا ریاستی ادارے انتخابات پر اثرانداز ہو رہے ہیں اور یہ کیسے یقینی بنایا جا رہا ہے کہ ایسا نہ ہو، نگران وفاقی وزیر نے کہا کہ کسی بھی ریاستی ادارے کے انتخابی عمل یا نتائج پر اثرانداز ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔انھوں نے ان الزامات کو ’’سنی سنائی باتیں‘‘اور ’’سیاسی بیانات‘‘قرار دیتے ہوئے رد کر دیا۔اگر کوئی بات کر رہا ہے تو ثبوت لے کر آئے، عدالتیں بھی ہیں اور الیکشن کمیشن بھی، ان کے پاس شکایت لے کر جائیں تاکہ وہ تحقیقات کے بعد سزا سنائیں۔ سنی سنائی باتوں پر نہ تو ہم ایکشن لے سکتے ہیں اور نہ ہی یہ ہمارا مینڈیٹ ہے۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ انتخابات کے دن دہشتگردی کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے وزارت داخلہ، الیکشن کمیشن، تمام ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے،
صوبائی حکومتیں بھرپور کوشش کر رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ نگران حکومت الیکشن کو پر امن رکھنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کر رہی ہے اور یہ الیکشن پرامن ہو گا۔نگران وزیر اطلاعات و قانون نے بیرسٹر ظفر نے مقامی میڈیا کی جانب سے سینسرشپ اور دبا ؤکے الزامات کو بھی بے بنیاد قرار دیا۔یہ معاملہ سینیٹ میں سامنے آیا اور اس پر کمیٹی بنا کر تحقیقات کی ہدایت کی گئی لیکن وہاں سے ابھی تک ایسی کوئی ہدایت نہیں ملی کہ یہ مسئلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس بارے میں ان کے پاس شکایت نہیں آئی ہے۔بیرسٹر ظفر نے کہا کہ کیپل آپریٹیر اور ٹی وی چینلز کے درمیان نمبر گیم کا مسئلہ دس سال سے چل رہا ہے اور یہ معاملہ سپریم کورٹ بھی گیا تاہم پارلیمان نے اس پر کوئی قانون سازی نہیں کی۔اب ہم سے دو مہینے میں توقع کرنا کہ ہم ٹھیک کریں گے تو ہم پر الزام لگانا جائز نہیں ہے۔