اسلام آباد(نیوزڈیسک)دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ہر سال آٹھ مئی کو اس مرض سے متعلق آگہی کا عالمی دن منایا تو جاتا ہے لیکن اس سے جڑے مثبت اثرات کا نتیجہ اس مرض میں مبتلا بچوں کی پیدائش میں کمی کی صورت میں دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ ڈاکٹر عبدالمنعم کہتے ہیں کہ اس مرض میں اضافے کو روکنے کے لیے عوام کو اپنی سطح پر ضرور کوشش کرنی چاہیے۔ تب ہی اس موروثی مرض کے خلاف جنگ کامیاب ہو سکے گی۔ ”میں لوگوں کو مشورہ دوں گا کہ جو لوگ بھی شادی کرنے والے ہوں، وہ تھیلیسیمیا کیریئر اسکیننگ کا اپنا چھوٹا سا بلڈ ٹیسٹ ضرور کروائیں۔ اس سے پتہ چل جاتا ہے کہ اگر وہ کیریئر ہیں، تو ان کا آپس میں شادی نہ کرنا بہتر ہو گا۔ اگر کسی مجبوری کی وجہ سے ایسے دو انسانوں کی شادی ہو بھی جاتی ہے، تو بچے کی پیدائش سے پہلے ٹیسٹ کی سہولت بھی موجود ہے۔ ایک خاص ٹیسٹ کے ذریعے حمل کے بارہویں ہفتے میں پتہ چلایا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں پیدا ہونے والا پیدا ہونے والا تھیلیسیمیا میجر کا شکار ہوگا یا نہیں۔“ماہرین کے مطابق اگر تھیلیسیمیا میجر کے مریضوں کو مناسب علاج اور بروقت انتقال خون کی سہولت دستیاب رہے تو وہ بھی بالکل عام لوگوں کی طرح زندگی گزار سکتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں خون کی تبدیلی کے بعد جسم میں جمع ہونے والے اضافی فولاد کے اخراج کے لیے جو ادویات لازمی طور پر درکار ہوتی ہیں، وہ بھی مستقل میسر رہنی چاہییں۔ پاکستان میں ایسے کسی مریض کے علاج پر ماہانہ دس ہزار سے لے کر پندرہ ہزار روپے تک لاگت آتی ہے اور یہ علاج زندگی بھر کرانا پڑتا ہے۔