اسلام آباد (نیوزڈیسک) مراکش کا شمار آج دیگر مسلمان ممالک کی طرح دنیا کے کمزور ترین ملکوں میں ہوتا ہے لیکن ایک وقت ایسا بھی تھا کہ انگلینڈ کے بادشاہ نے نہ صرف مراکش کے حکمران سے دفاعی مدد طلب کی بلکہ اسلام قبول کرنے کی پیشکش بھی کی۔ تاریخ دانوں کے مطابق تیرہویں صدی کے آغاز میں انگلینڈ کے حکمران کنگ جان نے ایک سفارتی مشن مراکش کے حکمران الموحد سلطان محمد الناصر کے پاس بھیجا اور فرانس کی طرف سے حملے کے خدشے کے پیش نظر مدد طلب کی۔
کنگ جان کی سلطنت میں طاقتور نوابوں نے بغاوت کردی تھی، پوپ نے اس کا بائیکاٹ کردیا تھا جبکہ فرانس حملے کی دھمکیاں دے رہا تھا۔ انگلینڈ کی طرف سے تین سفراءپر مشتمل وفد کی قیادت بشپ راجر نے کی۔ یہ وفد جب مراکش کے سلطان کے دربار میں پیش ہوا تو نہ صرف انگلینڈ کے حکمران کی طرف سے سلطان کو خراج ادا کرنے کی پیشکش کی بلکہ یہ بھی بتایا کہ کنگ جان اسلام قبول کرنے کے لئے تیار ہے۔ مﺅرخین کا کہنا ہے کہ سلطان الناصر نے یہ پیشکش مسترد کردی۔ انگلینڈ نے اپنے حالات اپنے طور پر بہتر کرنے کی کوشش جاری رکھی اور خصوصاً تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں کو پھیلانے کی بھرپور کوشش کی۔ انگلینڈ نے اپنا کاروبار دیگر ممالک تک پھیلایا اور مراکش کو بھی لکڑی، دھاتیں اور اسلحہ بیچنے کا کاروبار شروع کردیا۔ سولہویں صدی تک صورتحال بہت بدل چکی تھی اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ جب 1600ءمیں مراکش کے حکمران احمد المنصور نے اپنے سفیر کو ملکہ برطانیہ الزبتھ اول کی خدمت میں مدد کی درخواست کے ساتھ بھیجا۔ ملکہ نے مراکش کی دفاعی مدد کی درخواست مسترد کردی البتہ کاروباری اور تجارتی تعلقات جاری رکھنے پر زور دیا۔ واضح رہے کہ مراکش کی طرح دیگر کئی مسلمان ریاستیں بھی ایک وقت پر اتنی مضبوط تھیں کہ یورپ ان سے مدد کی درخواست کرتا تھا لیکن پھر یورپی تجارت اور کاروبار پھلتا پھولتا گیا اور مغرب دنیا کا حکمران بن گیا جبکہ مسلمان ممالک اس کے دست نگر بن کر رہ گئے۔