ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

چوہدری نثار نے عمران خان سے 30سالہ دوستی کا حق ادا کر دیا کپتان کو ٹارگٹ کرنے کا ٹاسک ملنے پر نواز شریف کو کیا جواب دیا ن لیگ سے استعفیٰ کس موقع پر دینے والے ہیں، دھماکہ خیز اعلان کر دیا

datetime 20  مارچ‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(اے این این ) سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ عدالت سے تصادم ٹھیک نہیں ،نواز جیل گئے تو پارٹی کو نقصان ہوگا،سابق وزیر اعظم کے کان یہ کہہ کر پکا دئیے گئے کہ آپ جیل گئے تو ہمدردی ملے گی،میں واحد انسان تھا جس نے پانامہ کا معاملہ عدالت لے جانے کی مخالفت کی تھی،میں نے نواز شریف کی کرپشن نہیں دیکھی،عدالت پوچھ رہی اور وہ جواب دے رہے ہیں ،

شہباز شریف کو لیڈر مانتا ہوں ،مریم اور حمزہ ہمارے بچے ہیں جب وہ لیڈ کرینگے ہم خاموشی سے سائیڈ پر ہو جائیں گے،پیچھے سے احکامات آتے رہے تو شہباز شریف کام نہیں کر سکیں گے، ن لیگ میں اختلاف رائے کی آزادی ختم، عزت ملنے تک حالات ٹھیک رہے، عمران خان کے ساتھ تین سال سے رابطہ نہیں ،کسی پر ذاتی تنقید نہیں کر سکتا،پرویز مشرف کو عدالتی حکم پر بیرون ملک جانے کی اجازت دی،ان کی واپسی بھی سپریم کورٹ کی ذمہ داری ،عدالتی حکم پر کسی کے بھی ریڈ وارنٹ جاری کئے جا سکتے ہیں،ن لیگ کی طرف سے چیئرمین سینیٹ کیلئے رضا ربانی کے نام کا عوامی سطح پر اظہار نہیں ہونا چاہیے تھا،کوئی پارٹی نہیں چاہتی ان کے امیدوار کی نامزدگی کوئی اور کرے ۔نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے چودھری نثار کا کہنا تھا کہ میرا پہلے دن سے موقف ہے کہ سپریم کورٹ سے تصادم کی پالیسی نہیں اپنانی چاہیے۔ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو عدالتی فیصلے پر تحفظات ہیں تو قانونی راستہ اپنائیں۔ ان کے کان پکا دیئے گئے ہیں کہ آپ جیل جائیں گے تو ہمدردی کا تاثر ملے گا لیکن میرا خیال ہے نواز شریف جیل گئے تو پارٹی کو نقصان ہو گا۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہونا چاہیے، عدالتِ عالیہ کا غلط فیصلہ ہے تو اس کے ذمہ دار ہم ہیں، ہم خود کیس کو سپریم کورٹ لائے۔ واحد شخص ہوں جس نے اختلاف کیا کہ کیس کو سپریم کورٹ نہیں لے کر جانا چاہیے۔

نواز شریف نے چند لوگوں کے جھرمٹ میں فیصلہ کیا کہ کیس سپریم کورٹ میں لے کر جانا چاہیے۔پارٹی معاملات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ میں اختلاف رائے کی آزادی ختم، عزت ملنے تک حالات ٹھیک رہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تحریری فیصلے کے بعد پرویز مشرف کو جانے کی اجازت دی گئی۔

پرویز مشرف ڈھائی سال ای سی ایل میں رہے لیکن جو تنقید کرتے ہیں، انھوں نے ان کا نام ای سی ایل میں کیوں نہیں ڈالا؟ ٹرائل کورٹ نے کہا کہ مشرف کا نام ای سی ایل سے نکال دیا جائے، ہائیکورٹ نے بھی ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا، اس کے بعد 15 دن کے اندر ہم نے سپریم کورٹ میں اپیل کر دی لیکن وہاں سے بھی ہماری اپیل مسترد کر دی گئی یعنی فیصلہ برقرار رکھا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کے وکیل نے علاج کی اور واپس آنے کی بات سپریم کورٹ میں کی تھی، اس کی ذمہ داری سپریم کورٹ کی ہے ہماری نہیں، عدالت کہے تو کسی کے بھی ریڈ وارنٹ جاری کئے جا سکتے ہیں۔سینیٹ انتخابات پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ رضا ربانی پاکستان میں سب سے بہتر چیئرمین سینیٹ رہے لیکن اگر ہم انھیں بطور چیئرمین سینیٹ لانا چاہتے تھے تو عوامی سطح پر کیوں اظہار کیا گیا۔

کون سی پارٹی چاہے گی کہ ان کے امیدوار کی نامزدگی کوئی اور پارٹی کرے۔ اگر نمبر پورے نہیں تھے تو آخری وقت میں چیئرمین سینیٹ کی نامزدگی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ چودھری نثار نے کہا کہ اگر سینیٹر ہوتا تو ڈپٹی چیئرمین کو ووٹ نہ دیتا کیونکہ جس کو ڈپٹی چیئرمین کے لیے نامزد کیا گیا وہ اداروں کے خلاف بولتے رہتے ہیں۔چیئرمین تحریک انصاف کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ

عمران خان سے سکول دور سے دوستی ہے، وہ جب کرکٹ کھیلتے تھے تب کئی بار ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ پارٹی میں چند لوگوں کو میرے خلاف کچھ نہیں ملتا تو جا کر کان بھرتے ہیں کہ اس کی عمران خان سے دوستی ہے۔ میرا ساڑھے 3 سالوں سے عمران خان سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ نواز شریف سے کہا تھا کہ میں عمران خان پر ذاتی تنقید نہیں کر سکتا۔ نواز شریف کو کہا ہے کہ

جس کے ساتھ 30 سال کا تعلق ہو بگاڑنے میں بھی 30 سال لگانا چاہیے ۔مریم نواز اور حمزہ شہباز ہمارے بچوں کی طرح ہیں، کل جب یہ لیڈر ہوں گے تو خاموشی سے سائیڈ پر ہو جائیں گے۔ اس وقت شہباز شریف پارٹی لیڈر ہیں اور میں ان کو لیڈر مانتا ہوں۔ شہباز شریف پارٹی موجودہ حالات کے حوالے سے نیک شگون ہیں۔ شہباز شریف کو کام کرنے دیا گیا، پیچھے سے احکامات نہ آئے تو اچھا ہو گا،

اگر پیچھے سے احکامات آتے رہے تو شہباز شریف کام نہیں کر سکیں گے۔ انہوں نے واضح کہا کہ اگر مریم نواز پارٹی لیڈر ہوئیں تو میں حصہ نہیں بنوں گا۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز کیسے فلیٹ لے سکتی ہیں، یہ وہ ہی جواب دے سکتی ہیں، میں نے کرپشن اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھی، جماعتوں میں کسی سے نہیں پوچھا جاتا کہ پیسہ کہاں سے آیا، یہ کام اداروں کا ہے، سپریم کورٹ نواز شریف سے پوچھ رہی ہے اور وہ جواب دے رہے ہیں۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…