پشاور (مانیٹرنگ ڈیسک) سینئر صحافی و تجزیہ کار کامران خان نے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں خیبرپختونخوا پولیس کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ مشال کے قاتل عارف کو مردان سے گرفتار کر لیا گیا اور کوہاٹ کی طالبہ عاصمہ رانی کے قاتل کو شارجہ میں انٹرپول کے ذریعے گرفتار کرنے پر کے پی کی پولیس تعریف کی مستحق ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ ان دونوں کیسزکے مرکزی ملزموں کا تعلق کسی حوالے سے تحریک انصاف سے بھی تھا،
مشال قتل کیس کا مرکزی ملزم عارف پی ٹی آئی کا کونسلر تھا جبکہ عاصمہ رانی کا قاتل مجاہد آفریدی تحریک انصاف کے ضلعی صدر کا بھتیجا تھا، سینئر صحافی کامران خان نے کہاکہ ان دونوں ملزمان کا حکمران جماعت سے ہونے کے باوجود پولیس نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہاں پر جو پولیس کا نظام چل رہا ہے اس کا تحریک انصاف کی حکومت کو کریڈٹ جاتا ہے کہ اس میں سرکاری مداخلت نہیں ہے۔ یہاں پر سیاسی مداخلت نظر نہیں آتی۔ سینئر صحافی کامران خان نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے نئے آئی جی صلاح الدین خان محسود بھی پولیس کو انتہائی پیشہ ورانہ انداز سے چلا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ شکایت یہ رہتی ہے کہ پولیس کے محکمے میں کرپشن ہے تو کے پی پولیس میں سب سے کم کرپشن ہے۔ اس موقع پر سینئر صحافی نے آئی جی خیبرپختونخوا سے سوال کیا کہ خیبرپختونخوا پولیس میں کرپشن کیسے کم ہوئی، جس پر آئی جی خیبرپختونخوا نے کہا کہ شکایات بہت کم آتی ہیں اور جب شکایات آتی ہیں تو اس پر سختی سے کارروائی کی جاتی ہے۔ اس میں کسی کو معاف کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی کسی معاف کرنے کی۔ اس کے علاوہ ہمارا یہاں پبلک ایکسس سسٹم ہے آئی جی کا، جس کے ذریعے آئی جی سے عوام رابطہ کرتی ہے اور آئی جی کے موبائل پر رابطہ کیا جاتا ہے۔ ہر ضلع میں ڈی پی او کا نمبر بھی ہوتا ہے جو ہر چھ ماہ بعد عوام کے لیے اپ ڈیٹ کر دیے جاتے ہیں۔ آئی جی نے کہاکہ ٹرانسپرنسی اتنی بنا دی ہے کہ پولیس کے لیے اپنے گناہ چھپانا مشکل ہو جاتا ہے لیکن اس کے باوجود کسی کی شکایت آئے تو پھر اس کو چھوڑا نہیں جاتا، پچھلے دس ماہ میں میں نے خود چودہ سو اہلکاروں کو سزا دی ہے۔