حیدرآباد(آئی این پی) امریکی اور پاکستانی ماہرین نے لگ بھگ ڈیڑھ سال کی تحقیق کے بعد کہا ہے کہ دریائے سندھ کا مشہور ڈیلٹا تیزی سے ختم ہورہا ہے اور 1833 سے اب تک یہ 92 فیصد تک سکڑ چکا ہے۔دریا اور سمندر کے ملاپ کو ڈیلٹا کہا جاتا ہے اور 1833 میں سندھ ڈیلٹا کا رقبہ 12900 مربع کلومیٹر تھا۔ لیکن دریائے سندھ کے بہاؤ میں فطری تبدیلی اور بڑی حد تک انسانی مداخلت کے بعد اس ڈیلٹا کا رقبہ اب صرف 1000 مربع کلومیٹر رہ گیا ہے یعنی 92 فیصد ڈیلٹا غائب ہوچکا ہے۔
مہران یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں قائم یونائیٹڈ اسٹیٹس پاکستان سینٹر فار ایڈوانسڈ اسٹڈیز ان واٹر (یو ایس پی سی اے ایس ڈبلیو) کے ماہرین نے 15 ماہ کی تحقیق کے بعد یہ بات کہی ہے۔ کئی عشروں سے ڈیلٹا کے رہائشی، ماہرین اور ماحولیاتی کارکن سندھ ڈیلٹا کی تباہی، سمندری دراندازی، ماہی گیروں کی مشکلات اور زمین سمندر برد ہونے کا نوحہ کرتے رہے ہیں۔ یہ مسئلہ جتنا شدید اور سنگین ہے اسے اتنا ہی نظرانداز کیا گیا ہے۔تحقیق کیلیے یو ایس پی سی اے ایس ڈبلیونے سیٹلائٹ تصاویر اور تحقیقی ٹولز سے یہ پروجیکٹ مکمل کیا ہے۔ اس کے بعد جامعہ مہران میں منعقدہ سیمینار میں اس کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں جن میں سندھ ڈیلٹا کی درست صورتحال اور وہاں کی عوامی آرا کے لحاظ سے درست حقائق بیان کیے گئے ہیں۔اس موقع پر ڈاکٹر الطاف علی سیال نے کہا، ’سندھ ڈیلٹا 12900 مربع کلومیٹر سے سکڑ کر 1000 مربع کلومیٹر تک رہ گیا ہے۔ ایک زمانے میں یہاں 17 کریک (creeks) تھے جن میں سے اب صرف دو کریک رہ گئے ہیں۔ رامسر کنونشن کے مطابق انڈس دنیا کے پانچویں بڑے ڈیلٹا میں شامل ہے۔ یہ ڈیلٹا دنیا کے ساتویں بڑے مینگرووز (تمر) کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کررہا ہے۔ اب یہاں کی خشکی تیزی سے گھل کر غائب ہورہی ہے، سمندر اوپر کی جانب آرہا ہے، زرخیز مٹی کو نمک چاٹ رہا ہے، دریائے سندھ کا بہاؤ سست ہوا ہے
اور اس سے آب وہوا میں تبدیلی واقع ہورہی ہے۔‘ماہرین نے 1972 سے اب تک یعنی گزشتہ 45 برس کی سیٹلائٹ تصاویر کا جائزہ لیا ہے۔ ان میں کریکس کو دریائے سندھ کے دائیں اور بائیں والے حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ دریائے سندھ کے دائیں جانب سرکریک اور واری کریک کو زون ون قرار دیا گیا ہے؛ جبکہ واری اور خوبر کریک کو زون ٹو کہا گیا ہے۔ دریائے سندھ کی دائیں جانب خوبر اور ڈبو کریکس کے درمیانی علاقے کو زون تھری اور ڈبو ار پھٹی کریک کے درمیانی رقبے کو زون فور گردانا گیا ہے۔
مطالعے کے تحت زون میں خشکی کا اوسط سالانہ کٹاؤ 45.69 میٹر ریکارڈ کیا گیا جبکہ زون ٹو میں 52.1 میٹر سالانہ زمین ختم ہورہی ہے۔ زون تھری اور زون فور میں بالترتیب ہرسال 27.21 میٹر اور 31.43 میٹر زمین کو پانی نگل رہا ہے۔ تمام زونز میں سے زون ٹو میں سب سے زیادہ سمندری مداخلت دیکھی گئی ہے جہاں سمندر سوا کلومیٹر آگے بڑھ چکا ہے جبکہ زون ون میں سمندر، دریا کو 1.1 کلومیٹر پیچھے ہٹاکر وہاں قبضہ کرچکا ہے۔انڈس ڈیلٹا ٹھٹھہ اور سجاول ڈسٹرکٹ کے درمیان موجود ہے
اور یہ دونوں شہر دریائے سندھ کے بائیں جانب موجود ہیں؛ اور اس عمل میں سب سے زیادہ متاثر بھی ہوئے ہیں۔گزشتہ 45 برسوں میں سمندر نے ڈیلٹا کے 42,609 ہیکٹر علاقے کو ٹائیڈل فلڈ پلین (ٹی ایف پی) میں شامل کردیا ہے جو بلند سمندری موجوں یا ہائی ٹائیڈ میں زیرِ آب آجاتا ہے۔ 1972 میں ٹی ایف پی کی شرح 7.1 فیصد تھی جو اب 2017 میں تین گنا بڑھ کر 18 فیصد ہوچکی ہے۔ٹی ایف پی کا 81,324 ہیکٹر علاقہ مینگروز سے بھرا ہوا ہے۔ اس میں سے 36,245 ہیکٹر پر گھنے اور 45,079 پر ہلکے مینگرووز ہیں۔
لیکن پورے ٹی ایف پی کا صرف 12 فیصد حصہ مینگرووز پر مشتمل رہ گیا ہے۔ پروفیسر سیال نے مزید کہا کہ اسی عرصے میں جگہ جگہ پانی کے کھارے ذخائر بن رہے ہیں جن کا رقبہ 1600 مربع کلومیٹر سے بڑھ کر 3000 مربع کلومیٹر تک ہوچکا ہے۔ اب یہ حال ہے کہ سندھ ڈیلٹا کے ساتھ ساتھ ہر دو سے تین کلومیٹر پر نمکین پانی کے ذخائر موجود ہیں۔ اس سے مقامی آبادی شدید متاثر ہورہی ہے اور ڈیلٹا میں 88 فیصد علاقے کے کنووں میں کھارا پانی پایا جاتا ہے۔
پھر یہاں کے زیرِ زمین پانی میں تیزابیت، کلورائیڈز اور آرسینک (سنکھیا) کی بڑی مقدار موجود ہے جو عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی مقرر کردہ محفوظ مقداروں سے کہیں زیادہ ہے۔سمندری نفوذ کے ساتھ ساتھ ان سائنسدانوں نے اس علاقے کے درجہ حرارت اور پانی کے بخارات کی موجودگی میں بھی تبدیلی نوٹ کی ہے۔ 1960 سے 1990 تک جولائی کے مون سون میں اوسطاً 100 ملی میٹر بارش سالانہ ریکارڈ کی گئی ہے۔ 1990 سے 2015 تک بارش میں 40 فیصد کمی ہوئی ہے
جبکہ 1990 سے 2015 کے درمیان سندھ ڈیلٹا کے علاقے میں مارچ سے جولائی تک بھی درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے۔1951 میں ڈیلٹا سے سالانہ 5000 ٹن مچھلی پکڑی جاتی تھی جو کم ہوتے ہوتے اب صرف 295 ٹن رہ گئی ہے۔ماہرین نے کہا ہے کہ سمندر سے بچاؤ کیلیے کم سے کم 200 کلومیٹر طویل باڑ قائم کی جائے جس کا وعدہ وزیرِاعظم نواز شریف نے 2016 میں ٹھٹھہ کے دورے کے موقعے پر کیا تھا
لیکن اب تک اس پر کوئی کام نہیں ہوسکا ہے۔اس کے علاوہ پنیاری اور کے بی فیڈر کینال میں زیادہ پانی چھوڑنے کی تجویز دی گئی ہے جس سے 15 مردہ کریکس میں جان پڑسکتی ہے۔ اس کے علاوہ مینگرووز اور ہیلوفائٹس (نمک زدہ زمین میں اْگنے والے پودوں) کی افزائش سے معاملات کچھ بہتر ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کیکڑوں اور شریمپ کی فارمنگ سے مقامی لوگوں کی حالت بدلی جاسکتی ہے۔ آخر میں کہا گیا ہے کہ کوٹری بیراج سے نیچے کی جانب ایک کروڑ ایکڑ فٹ پانی کا سالانہ بہاؤ یقینی بنایا جائے۔