اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ نے شاہ زیب قتل کیس میں مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی اور مرتضٰی لاشاری کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے اس کیس میں سندھ ہائی کورٹ کو میرٹ پر فیصلہ کرنے کا حکم جاری کردیا۔ پیر کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے شاہ زیب قتل کیس میں ملزمان کی جانب سے دائر نظر ثانی اپیل پر سماعت کی۔سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کو بتایا جائے کہ شاہ رخ قتل کیس میں غلطی کہاں ہوئی ہے ٗ
اگر کوئی غلطی نظر آئی تو اسے ضرور ٹھیک کریں گے۔شاہ رخ جتوئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالتِ عظمیٰ میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 184 کی شق 3 کا استعمال خالصتاً عوامی مفاد کے لیے ہوتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو اپنے طریقے سے دلائل دینے کا پورا حق حاصل ہے کیونکہ ہم نے کبھی بھی کسی کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنے سے نہیں روکا اور ہمیں انصاف کے تقاضوں کو بھی پورا کرنا ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے پاس فیصلے پر اس کی اصل روح کے مطابق علمدرآمد کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔انہوں نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی جس پر لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے شفاف ٹرائل کا حق نہیں ملے گا۔شاہ رخ جتوئی کے وکیل کا کہنا تھا کہ کیا سپریم کورٹ آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت فیصلے کو کالعدم قرار دے سکتی ہے؟ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کو سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کا اختیار حاصل ہے ٗ اس وقت فیصلہ درست نہیں تھا اس لیے اس میں مداخلت کی گئی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سندھ ہائی کورٹ کے جج صاحبان عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف گئے اگر وہ اس کی صحیح تشریح کر لیتے تو یہ فیصلہ نہ دیتے۔لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ شاہ زیب قتل کیس کی ایف آئی آر میں انسدادِ دہشتگردی کی دفعات شامل نہیں تھیں، جبکہ اس واقعہ کو جاگیردارانہ طرز کی دہشتگردی قرار دیا گیا۔
چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ سپریم کورٹ آئے ہیں تاہم ہم اس معاملے کو دیکھیں گے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ ہم نے صرف شاہ زیب قتل ازخود نوٹس کے پہلے فیصلے کو برقرار رکھا جبکہ ہم نے صرف انسدادِ دہشتگردی کی دفعات کے تحت ٹرائل کرنے کا کہا تھا۔عدالت نے شاہ زیب قتل کیس میں مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی اور مرتضیٰ لاشاری کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کو حکم جاری کیا ہے کہ اس معاملے میں میرٹ پر فیصلہ کیا جائے۔