جرمنی (مانیٹرنگ ڈیسک) زندگی کے آخری لمحے میں انسانی جسم کے اندر کیا ہوتا ہے ؟ اس راز کو جاننے کا دعویٰ سائنسدانوں نے کیا ہے۔ یہ دعویٰ جرمنی میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا ہے۔ تحقیق کے مطابق مرنے سے پہلے یا زندگی کے آخری لمحے میں برقی سرگرمی کی ایک لہر دماغ میں پیدا ہوتی ہے۔ اس تحقیق کے دوران محققین نے قریب المرگ مریضوں کی دماغی سرگرمیوں کا جائزہ لیا تھا۔
تاکہ جان سکیں کہ آخری لمحات میں جسم کے سب سے اہم عضو کس طرح کام کرنا بند کرتا ہے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ جب جسم کے دیگر حصوں میں زندگی کے آثار ختم ہوجاتے ہیں تو بھی ذہنی شعور کچھ منٹ تک باقی رہتا ہے اور یہ پانچ منٹ تک برقرار رہ سکتا ہے۔ چریٹی یونیورسٹی کی تحقیق کے دوران دماغی ماہرین کی ٹیم نے نو ایسے افراد کے دماغوں کے برقی سگنل کا جائزہ لیا جو انتقال کرگئے تھے۔ برلن اور سنسناٹی سے تعلق رکھنے والے ان تمام انتقال کر جانے والے مریضوں کو جان لیوا دماغی انجری کا سامنا تھا اور ماہرین نے ان کے سر پر الیکٹروڈز نصب کیے تھے تاکہ مرنے کے عمل کا میکنزم دیکھ سکیں۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کسی فرد کے دل کی دھڑکن تھمنے کے پانچ منٹ بعد تک بھی دماغی خلیات کام کرسکتے ہیں۔ مگر جب خلیات کام کرنا بند کرتے ہیں، اس لمحے ایک برقی لہر سی دماغ میں دوڑتی ہے۔ محققین نے بتایا کہ جب یہ برقی لہر دوڑتی ہے تو دماغی خلیات کو توانائی دینے والے محفوظ الیکٹروکیمیکلز ختم ہونے لگتے ہیں اور موت کا عمل مکمل ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ اس عمل کو ریورس کیا جاسکتا ہے، خلیات اس وقت مرتے ہیں جب خون کی گردش تھمتی ہے اور آکسیجن کی کمی ہوجاتی ہے جنھیں یہ خلیات اپنے افعال کے لیے توانائی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے تو دماغی خلیات وہ محفوظ توانائی استعمال کرتے ہیں۔
جو چند منٹ تک انہیں کام کرنے کا موقع دیتی ہے جس کے بعد وہ مکمل طور پر مرجاتے ہیں۔ اس پراسیس کو اسپریڈنگ ڈپریشن بھی کہا جاتا ہے جس کے دوران عصبی خلیوں میں ایک برقی رو دوڑتی ہے جس کے بعد اچانک خاموش ہوجاتے ہیں۔ تاہم محققین کا کہنا تھا کہ اس عمل کا دورانیہ کتنا ہوسکتا ہے، اس بارے میں ابھی بحث کی جاسکتی ہے۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے Annals of Neurology میں شائع ہوئے۔