ٹھٹھہ (این این آئی) کوہستانی پٹی میں واٹرسپلائی اورآراو پلانٹ التوا کا شکار ، پانی کی شدید قلت، علاقے میں قحط کی صورتحال ، اسکیموں میں کرپشن کا انکشاف ، کوہستانی پٹی کے نواحی گاؤں خان محمد خاصخیلی ، چاڑھی گوٹھ ، امام ڈنو خاصخیلی ، کاری موری ، پیرمحمد گجن ، جڑیل برفت ، صالح محمد برفت ، ساڈھورو، ماما علی نوازجوکھیو سمیت کوہستان کے درجنوں گا ؤں میں سابق وزیراعظم بینظیربھٹو کے 1988 کے دور حکومت میں واٹرسپلائی کی اسکیمیں تعمیر کے لیے شروع کی گئی تھی۔
30 سال گذرنے کے باوجود تاحال مکمل نہ ہوسکی ہے این این ائی کو ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ افسران نے کمیشن کے عیوض تمام اسکیموں کے نام پر وقت بہ وقت کروڑوں روپے کے ٹینڈر جاری کرکے سرکاری خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان دیا ہے ، پیپلزپارٹی کے موجودہ دور حکومت میں یوسی جھمپیرمیں درگاھ امیرپیراور گاؤں علی حسن بروھی ، لیموں بروھی ، محمد خان بھارچ ، جانوری گوٹھ میں واٹر سبلائی اسکیموں کی لائینیں بھی بچھائی گئی ہے جوکہ تمام اسکیمیں کرپشن کے نذر ہوگئی ہے ، اور 4 سال گذرنے کے باوجود تا حال مکمل نہ ہوسکی ہے ، کوہستانی پٹی کے گاؤں جمعوں بکک، عثمان ھیجب ، گاوں رمضان ھیجب میں سال 1985 کے دوران واٹرسپلائی کی اسکیمیں شروع کی گئی تھی ،وہ بھی افسران کے کرپشن کے نذر ہوگئی ہے ، حکومت سندھ ، نیب اور دیگرعوامی اداروں میں تحریری شکایات دینے کے باوجود کوئی نوٹیس نہیں لیا گیا ہے ، کوہستانی پٹی کے مکینوں کے لیے حکومت سندھ نے بڑی آبادی والے 10 گاوں میں آر او پلانٹ لگاکرمکینوں کو صاف پانی فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا ، لیکن پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ ڈپارٹمنٹ کے افسران کی کرپشن اور لوٹ مار کی وجہ سے گاؤں کاروپالاری ، ریلوی اسٹیشن برادیہ آباد ، سچی ڈنو پالاری سمیت درجنوں گا وں میں اعلانیہ آر او پلانٹ التواکے شکار ہے۔
علاقے کے مکین اسد گوپانگ ، محمد ایوب ، سکندر بکک ، خدا بخش ، شاھ محمد چانگ نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ کوہستانی پٹی میں میٹھی پانی کی قلت کی وجہ سے درجنوں گاؤں میں جرء کا پانی زہریلہ ہو گیا ہے ، کوہستانی پٹی کی صورتحال پر حکومت سندھ ، منتخب نمائندوں اور متعلقہ افسران کو بار بار شکایت اور تحریری آگاہی کے باوجود کوئی بھی نوٹیس نہیں لیا جاتا ہے ، جس کی وجہ سے کوہستان میں قحط کی صورتحال نے جنم لیا ہے ۔