یہ لندن کے لیسسٹر سکوائر کا واقعہ ہے‘ رات کے 11 بجے تھے اور لیسسٹر سکوائر پر ایک پولیس اہلکار معمول کے مطابق اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہا تھا کہ اچانک اس نے دیکھا کہ ایک نوجوان سکوائر میں داخل ہوا جسکی حالت بہت بگڑی ہوئی تھی اور الٹیوں نے اسے بے حال کر دیا تھا۔ یہ بھاگتا ہوا اس نوجوان کے پاس آیا اور جب قریب سے اسکی حالت دیکھی تو اس نے ایمبولینس منگوائی۔ لیکن ایمبولینس میں بیٹھی نرس نے فسٹ ایڈ دے کر اسپتال لے جانے سے انکار کیا اور کہا ’’ذرا زیادہ شراب پینے سے اسکی حالت خراب ہو گئی ہے اور کچھ دیر بعد ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔
اس کے بعد پولیس اسکو چیزنگ کر اس پولیس اسٹیشن لے گیا۔ جہاں پر ضروری تحقیقات کے بعد اسکو رہا کیا گیا۔ اس نوجوان نے تحقیقا ت کے دوران اپنا نام عیوا ن جان لکھوا دیا جبکہ عمر 18سال بتائی اگلے دن جب پولیس نے اس کیس کے حوالے سے تحقیقات کیں توپتا چلا کہ اس نوجوان نے نہ صرف اپنا نام ‘عمر بلکہ ایڈریس بھی غلط لکھوایا تھا۔ اس کا اصل نام عوان بلیئر اور اسکی عمر 18نہیں 16سال تھی اور یہ برطانیہ کے وزیراعظم ٹونی بلیئر کا بیٹا تھا اور اس رات یہ اپنے دوستوں کے ساتھ پارٹی سے واپس آرہا تھا جہاں پر اس نے بہت زیادہ شراب پی رکھی تھی۔ یہ جاننے کے باوجود کہ یہ اس وقت کے وزیراعظم ٹونی بلیئر کا بیٹا ہے ‘ اس غلط بیانی پر پولیس نے اسکو دوبارہ تھانے مدعو کیا تاکہ وزیراعظم کے بیٹے کی اس حرکت پر اسکے خلاف قانونی کارہ جوئی کی جائے‘ ٹونی بلیئر اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کر کے اس کیس کو ختم کروا سکتا تھا‘یہ بھی پولیس چیف کو ملازمت سے نکالنے کی دھمکی دے کر اپنے بیٹے کے خلاف کسی بھی قسم کی تحقیقات نہ کرنے کا حکم دے سکتا تھا‘ لیکن اسکو اپنے اداروں کی بالادستی اور معاشرے کے عدل و انصاف اپنے بیٹے سے بھی زیادہ عزیز تھا۔ لہٰذا اس نے نہ اس پولیس اہلکار کو برطرف کیا جو اسکے بیٹے کو پکڑ کر تھانے لے گئے تھے اور نہ اس ایس ایچ او کو جس نے اس کے بیٹے کو دوبارہ مدعو کیا تھا۔ بلکہ یہ خود اپنے بیٹے کو لے کر اپنی اہلیہ سمیت تھانے میں پیش ہوئے اور پولیس کو کہا کہ عیوان کے خلاف قانونی کاروائی کر کے اسکو سزا دے جائے تاکہ کل کو لوگ یہ نہ کہ کہے کہ ٹونی بلیئر نے اپنی طاقت کا استعمال کر کے اپنے مجرم بیٹے کو بچا لیا۔اس کے بعد پولیس نے عوان کے خلاف قانونی کارروائی کی اور اسکو والدین کی ضمانت پر رہا کیا گیا۔
یہ بظاہر ایک چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن اس میں قوموں کی ترقی اور کامیابی کا بہت بڑا راز پوشیدہ ہے یہ راز عدل و انصاف کا نظام ہے کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس میں عدل وانصاف کا نظام نافذ کیا جائے۔آپ باقی شعبوں جسیے تعلیم ‘صحت ‘اکانومی اور ٹیکنالوجی وغیرہ کو لاکھ درجے بہتر کرلیں لیکن جب تک انصاف کا نظام قائم نہیں ہوگا ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔جب یورپ آج سے 200سال پہلے آگے بڑھنے اور تیزی سے ترقی کرنے کے عوامل پر سوجھ بوجھ اورتحقیق کررہاتھا تو انکو اس وقت اندازہ ہوگیاتھا کہ عدل وانصاف کے بغیر ترقی کرنے کا خواب پورا نہیں ہوسکتا ‘وہ یہ راز جان گئے تھے کہ اگر معاشرے کو تباہی سے بچانا ہے تو پھر آپکو عدل وانصاف کا نظام لانا ہوگا‘لہٰذا انہوں نے سب سے پہلے اپنے ملکوں میں عدل وانصاف کا ایسام نظام نافذکیا جس نے امیر وغریب کے فرق کو مٹا دیا‘یہ نظام اتنا طاقتور ہے کہ بل کلنٹن اور ٹونی بلیئر کے بیٹے کو بھی جیل بھیج دیا جاتا ہے اور اپنے بیٹے کی ضمانت کیلئے ٹونی بلیئر کو اپنی اہلیہ سمیت تھانے میں پیش ہونا پڑنا ہے‘یہ نظام اتنامؤثر ہے کہ وہاں کسی کو جرم کرنے کی جرا ت نہیں ہوتی‘جرائم کی شرح میں کمی کے باعث وہاں کی جیلیں خالی پڑرہی ہیں ۔اب امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی یورپی ممالک میں اس بات پر غور کیا جارہا ہے کہ ان جیلوں کو ہوٹلوں میں تبدیل کرکے ان کو کارآمد بنائے اور اس ضمن میں کچھ جیلوں پر تجربہ آزمایا گیا جو بہت مفید ثابت ہوا۔آج ہمیں یورپ میں ایسے عالیشان ہوٹلز ملیں گے جو پہلے جیل ہوا کرتے تھے‘جن کی تفصیل ذیل میں بیان کی جارہی ہے:
ہیٹ اریسٹویس (Het Arresthuis)ہوٹل‘ہالینڈ: ہیٹ اریسٹویس جیل 1862ء میں ہالینڈ کے شہر رویرمنڈ میں تعمیر کی گئی ‘یہ جیل 105بیرکس پر مشتمل تھی‘ان 105بیرکس کو 40کشادہ کمروں میں تبدیل کرکے ہوٹل بنادیا گیا۔یہ فیصلہ 2007ء میں کیا گیا تھا جبکہ فروری 2013ء کو ہوٹل کا باقاعدہ آغاز کیا گیا‘یہ ہوٹل 24سٹینڈرڈ ‘12 ڈیلکس اور 4سوئٹ کمروں پر مشتمل ہیں جو فرنشنگ اور احسن طریقے سے تیار کیے گئے ہیں ۔ہوٹل کے تمام کمرے ائیر کنڈیشنڈ ہیں ‘فلیٹ ٹی وی سکرین اور ہرکمرے میں چائے اور کافی کی مشین لگی ہوئی ہے اور اس میں فٹنس سنٹر اور گارڈن بھی موجو د ہے‘ہوٹل کو 4سٹار کٹیگری میں رکھا گیا ہے جبکہ اس کی فیس 200سے 300ڈالر فی رات ہے۔
لبرٹی ہوٹل ۔بوسٹن ‘امریکا: یہ ہوٹل کسی زمانے میں چارلس سٹریٹ جیل ہوا کرتا تھا‘اس جیل کو 1851ء میں تعمیر کیا گیا ‘جرائم کی شرح نہ ہونے کی بناء پر اس جیل کو عالیشان ہوٹل میں تبدیل کرنے کا فیصلہ 2008ء میں کیا گیا‘اس پر 150ملین ڈالر کا خرچ آیا تھا‘یہ ہوٹل 300کمروں پر مشتمل ہے ‘جس میں موجودہ دور کی تمام جدید سہولتیں موجود ہیں
ہوٹل کاٹا جانو کا‘ ہلن سکی‘فن لینڈ: کا ٹا جانو کا جیل 1837ء میں فن لینڈ کے شہر ہلنسکی میں تعمیر کی گئی‘یہ جنوبی فن لینڈ کی ڈسٹرکٹ جیل تھی ‘اس جیل کی تزئین وآرائش پر 15ملین یورہ خرچ کر کے اس کو ہوٹل میں تبدیل کردیا گیا ۔مئی 2007ء کو ہوٹل کا باقاعدہ افتتاح کیا گیا۔یہ 106کمروں پر مشتمل ہیں‘ اس کا شمار فن لینڈ کے اعلیٰ ترین ہوٹلوں میں ہوتاہے‘اس کی فیس 123ڈالر سے 230ڈالر تک ہے‘ہو ٹل کو 4سٹار کٹیگری میں شامل کیا گیا ہے۔
اوٹاوا جیل ہوٹل ۔اوٹاوا‘کینیڈا: یہ جیل 1869ء میں کینیڈا کے شہر اوٹاوا میں تعمیر کی گئی ‘1972 ء میں ہوٹلنگ انٹرنیشنل نے اسے خرید کر ہوٹل بنادیا گیا‘یہ 60چھوٹے اور 30بڑے کمرے ہیں ‘یہاں پر شہر بھر سے آئے ہوئے طلباء کو کمرے رینٹ پر دیئے جاتے ہیں جن سے فی رات 5ڈالر چارج کئے جاتے ہیں ۔
مال مائسن آکسفورڈ ہوٹل ۔آکسفورڈ‘برطانیہ: اس جیل کو 1870ء میں تعمیر کیا گیا ‘اس جیل کو 1996ء میں ہوٹل میں تبدیل کردیا گیا‘یہ ہوٹل 100کمروں پر مشتمل ہیں ‘اس ہوٹل کا شمار برطانیہ کے مہنگے ترین ہوٹلز میں ہوتا ہے‘جس کی فیس 250سے 300ڈالر ہے اور اسکو 3سٹار کٹیگری میں شامل کیا گیا ہے۔
ایک طرف ترقی یافتہ ممالک میں جیلوں کو ہوٹلوں میں تبدیل کرنے کا رواج پروان چڑھ رہا ہے تو دوسری طرف ہمارے ملک میں جرائم کی شرح میں آئے روز اضافہ کے باعث جیلوں میں قیدیوں کے لیے جگہ کم پڑ گئی ہے۔ اس وقت پاکستان میں ٹوٹل ۹۹جیل ہیں۔ جن میں 42670قیدیوں کی گنجائش موجود ہے۔ جبکہ اس وقت پاکستان میں کل قیدیوں کی تعداد 87ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ جیل کو ہوٹل میں تبدیل کرنا تو دور کی بات ہم قیدیوں کے لیے جیل بھی مہیا نہیں کر سکتے۔
پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ قیدیوں کے لسٹ 12ویں نمبر پر ہے۔ لیکن سب سے زیادہ جیل میں پاکستان27ویں نمبر پر ہے۔اسی طرح پاکستان میں ایک لاکھ لوگوں کے لیے 40جیلیں موجود ہیں جب کہ امریکہ میں ایک لاکھ لوگوں کے لیے 743جیلیں موجود ہیں۔ آج ہم جن حالات سے گزرے رہے ہیں ان حالات میں ہم حکومت سے یہ مطالبہ تو نہیں کر سکتے کہ قیدیوں کے لیے نئی جیلیں قائم کی جائیں۔ کیوں کہ یہاں پر عام شہری کی حالت بھی کسی قیدی سے کم نہیں۔ لیکن اگر حکومت لوگوں کو فوری انصاف مہیا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو قیدیوں کے یہ مسئلے خود بخود حل ہو جائیں گے۔ کاش ہم بھی اپنی جیلوں کو ہوٹلوں‘کالجزاور لائبریری میں تبدیل ہوتے دیکھیں۔