(تحریر:ایچ آئی عاشر)شادی کی تقریبات میں شرکاء پر اگر سرسری نظر دوڑائی جائے تو کچھ نٹ کھٹ لڑکوں کواپنے پف کی فکر رہتی ہے،جو ہر لمحے بعد ہاتھوں کا پنجھا ماتھے سے گھسیٹتے ہوئے پورے سر پر پھیرنے میں مصروف رہتے ہیں۔کچھ کی نظر اپنے نئے چمکتے دمکتے بوٹوں سے نہیں ہٹتی باربار جھُک کر دیکھتے ہیں کہ کٹا مٹی نہ پڑ جائے۔کاٹن میں ملبوس جوانوں کو بس اُٹھتے بیٹھے یہی پریشانی لاحق رہتی ہے کہ سلوٹ نہ پڑ جائے۔
کہیں کسی کونے کھانچے میں کچھ گھبرو جوان کالی رنگی ہوئی مونچھوں کو بل دیتے سگریٹ سلگاتے پائے جاتے ہیں۔اکثریت اپنے اپنے ٹچ موبائل پرلگے ہیں اور نہ جانے کس بات پر مسکرائے جارہے ہیں۔ایک دوسرے کے خبر سے بے خبر ہیں۔ گویا ہر کوئی اپنے ہی حال میں مست ہوتا ہے،بس سماعتوں کو کھانے کے کھُلنے کے اعلان کا انتظار ہے۔ مستورات والی سائیڈ پر رنگا رنگی تو زیادہ ہے مگرباقی کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ نیلو گھاگھرے کا گھیرا اُٹھائے کبھی اِدھر کبھی اُدھرنظر آرہی ہے۔شبو لہنگے کو سمیٹے سمیٹے بیٹھ اُٹھ رہی ہے۔بلو بھی بار بار پرس سے شیشہ نکال کر چہرے کوچمکانے کا فریضہ انجام دی رہی ہے۔ شبو بھی ماتھے میں پسینے سے پریشان ہے، ٹشو پر ٹشو رگڑے جارہے ہیں اورٹیبل کے نیچے پھینکے جا رہے ہیں۔گوٹے کناریوں والے ڈوپٹے میں کان بالیاں چھیڑ چھاڑ میں ایسی مگن ہیں کہ باجی پنکی کو سکون نہیں۔چھمک چھلو کے اپنے ہی نخرے اور پریتو کے اپنے ہی جان لیوا انداز ہیں۔گویا یہاں بھی ہرکوئی اپنی ہی موج مستی میں محو ہے۔لیکن یہاں ایک پھوپھو اللہ دتی بھی ہوتی ہے جو ساٹھ ستر کی تو ہو گی مگر بناؤ سنگھار کسی کنیا کنواری سے کم نہیں،پٹاخہ کہہ لیں یا پھلجھڑی،محلے میں تو محترمہ کو کوئی چیچڑ کی آواز کس کر چھیڑتا ہے اور کوئی ماچس،بم کہہ کر دوڑ جاتا ہے۔کوئی دیکھتاہے تو یہ کہہ کر منہ پھیر لیتا ہے کہ ’’آ گئی شرلی‘‘۔ کسی کے گھر آ دھمکے تو سیاسی اپنی بہوؤں کو
گھور کر آنکھوں ہی آنکھوں میں کہہ دیتی ہے کہ خبرداراب گھر کی کوئی بات اِس کے سامنے کی۔ لیکن تعجب کی بات نہیں کہ یہ پھوپھر بعض عورتوں کیلئے تو نہایت ہی کارآمد ہے،کیونکہ شہر بھر کے اُن تعویز گنڈے والوں کو جو جانتی ہے جن کے پاس جاہلوں کے ہر مسلئے کا حل دو دن یا نو دن میں موجود ہوتا ہے۔یہاں تقریب میں بھی پھوپھو اللہ دتی کو سنسنی خیزی کا مرض لاحق ہے جو ساتھ بیٹھی اللہ وسائی کے ناک میں دم کئے ہوئے ہیں۔۔اللہ وسائی کو باتوں میں دلچسپی بھی نہیں مگر کیا کرے گود میں بیٹھے ٹانگ سے چپکے پانچ چھے بچوں کیساتھ ٹیبل بدلنا بھی عذاب ہے۔
پھوپھو اللہ دتی کی دماغ میں کمیٹیوں،محلے کی لڑائی جھگڑوں، ادھر اُدھر کی لگائی بجھوائی والی باتوں والی میموری خالی ہوچکی ہے سب باتیں سُنا چکی ہے اور بار بار سُنا چکی ہے اور تو اور اِن باتوں کی کھال بھی اتار چکی ہے۔لیکن خاموش رہنا بھی کسی عمر قید سے کم نہیں،کچھ نہ کچھ بولنا اور بولتے ہی جانا ہے،کوئی سنے نہ سنے ہمیں کیا۔دل تو ہلکا کریں۔۔ بس اِسی سبق پر کاربند ہیں۔۔۔۔۔جس جس پر نظر ٹک رہی ہے وہی اللہ دتی کے تنقید کے زد میں ہے،کسی کے کپڑے آؤٹ آف فیشن، کسی کا بے ڈھنگ میک آپ،کسی کے نین نقش ایک آنکھ نہیں بھا رہے۔ نظریں ادھر ہی نہیں، پردے کے اُس پار لڑکوں پر بھی جمی ہیں۔۔۔کسی کی ڈھیلی پتلون۔کس کا چُڑمڑ کرُتا،کسی کے لوز تسمے،کسی کا بٹن ٹوٹا کف کچھ بھی اللہ دتی کے قاتل نگاہوں سے اوجھل نہیں،
سجھے دھجے باراتیوں کے پینٹ،کوٹ،ٹائی،ہیٹ،شلوارقمیض ہر شے پر لمبی لمبی کہانیاں اللہ وسائی کی زندگی اجیرن کرنے کیلئے کافی ہیں،سر چکرانے لگا ہے،مگر مجال ہے کہ اللہ دتی خاموش ہو جائے۔ آج کل ایسا ہی منظر سیاست میں بھی بہت غالب ہونے لگا ہے۔ فنکارانہ صلاحیتوں سے آراستہ و مزین عمران خان بھی سیاسی بارات میں پھوپھو اللہ دتی کا کردار باخوبی نبھانے لگے ہیں۔ آئے دن اِن کا مخالفین پربے جا تنقید سے ہمارا اللہ وسائی میڈیا تنگ آچکا ہے،مگر کیا کریں مفادات مقدم ہیں۔ریٹنگ کی جس سیٹ پر براجمان ہیں وہ ہاتھ سے کھونا نہیں چاہتے۔بہت سے باتیں ہیں مگر یہاں اِن کا آج کا بیانیہ ہی کافی ہے جو اِنہوں نے اپنے سیاسی حریف شہبازشریف کو ڈرامے باز قرار دیتے ہوئے میڈیا کو جاری کیا کہ ’’’پاکستان میں سب لوگ شلوار قمیض پہنتے ہیں،
لیکن شہباز شریف نے اپنے سارے سوٹ نکالے ہوئے ہیں اور اسی لیے ہر روز نئے نئے ہیٹ (ٹوپی) پہنتے ہیں تاکہ امریکیوں کو یہ بتا سکیں کہ میں بھی ان ہی کی طرح ہوں‘‘۔ناجانے یہ کیسی سیاست ہے؟جہاں کپڑوں پر تنقید کو سیاست سمجھا جا رہا ہے۔جن کو عوام کی ذہن سازی کرنی چاہیے وہ کپڑے سازی میں مصروف ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ بڑاسیاست سیاستدان ہمیشہ بڑی ہی بات کرتا ہے اور چھوٹا سیاست دان چھوٹی۔کم سے کم خان صاحب بڑے کرکٹر ہونے کی ہی لاج رکھ لیتے۔ اُنہیں رتی بھر احساس نہیں نئے عام الیکشن کے سال کا آغاز ہوچکا ہے اور عوام کی نگائیں، سماعتیں،سوچ،فکر اپنے مستقبل کے اچھے لیڈر کے چناؤ پر مرکوز ہیں۔
عوام کارکردگی چاہتی ہے، منشور جانچنا چاہتی ہے۔ ایسے حالات میں حکمران جماعت مسلسل اپنے منصوبہ جات کے افتتاح کے ذریعے اپنے عزم کا مظاہر ہ کر رہی ہے۔ اور خان صاحب پھوپھو اللہ دتی کا کردار نبھاتے ہوئے دوسروں کی پگڑیاں اُچھالنے کو ثواب سمجھے بیٹھے ہیں۔ بس اتنا ہی کہوں گا کہ خدایا جس صوبے کی عوام نے مینڈیٹ دیا ہے اُن ہی تھوڑا خیال کر لیں وہ چار سال گزر جانے کے بعد بھی تبدیلی کے متلاشی ہیں،سکولوں،ہسپتالوں،سڑکوں کا حال آپ سے توجہ کا تقاضہ کر رہے ہیں۔ کارکردگی دیکھائیے بھن ٹھن کر سامنے آئیں تا کہ آپ اِس سیاسی بارات میں سب کیلئے مرکزِنگاہ بن جائیں ورنہ آپ پھوپھو اللہ دتی کی طرح بول بول کر تھک جائیں گے۔۔اور یہ نہ ہو عوام وہی حال کرے جو بارات میں پھوپھو اللہ دتی کا تقریب کے آخر میں رخصتی کے بعد ہوتا ہے۔اللہ دتی بیت الخلاء کا پھنس جاتی ہے اور باراتی کھانا شانا کھا کر موج میلا منا کر،اللہ دتی کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔اور پھر وہ اکیلی باہر نکل کر چلاتی ہے۔۔’’میری گلاں دے مزے تے سارے لیندے سی،تے پُل وی سارے گئے نیں؟‘‘