پشاور(نیوزڈیسک)وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے وفاقی حکومت سے احتجاج کرتے ہوئے صوبہ خیبرپختونخوا میں بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ختم کرنے ، پن بجلی کے خالص منافع اور دوسرے ٹیکسوں کی مد میں 160 ارب روپے کے واجبات کی ادائیگی ، صوبے کو اپنی اضافی گیس اور آبی وسائل سے بجلی پید ا کرنے کی اجازت اور پاک چین اقتصادی راہداری کے اصل روٹ کی بحالی کے مطالبات کئے ہیں انہوں نے صوبے کے ان حقوق کے حصول کیلئے صوبے کی پارلیمانی پارٹیوں کے ساتھ مل کر ہر فور م پر بھر پور جدوجہد کا اعلان بھی کیا ہے خیبرپختونخوا اسمبلی کے پارلیمانی لیڈروں نے بھی وزیراعلیٰ کے تحفظات اور مطالبات کی مکمل حمایت کرتے ہوئے اس بارے میں صوبائی اسمبلی سے متفقہ قرارداد منظور کرانے سمیت اپنے بھر پور تعاون کا یقین دلایا ہے یہ اعلانات جمعرات کے روز صوبائی اسمبلی کے کانفرنس روم میں اپوزیشن پارٹیوں سمیت تمام پارلیمانی لیڈروں کے اجلاس میں کئے گئے جس میں سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی اسدقیصر نے بھی شرکت کی وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے وفاقی حکومت کی جانب سے صوبہ خیبرپختونخوا کے عوام کو اُن کے حقوق کی عدم فراہمی اور قومی ترقی کے منصوبوں میں خیبرپختونخوا کو نظر انداز کرنے پر اپنے تحفظات اور گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ صوبائی حکومت نے اُن حقوق کے حصول کیلئے وفاقی حکومت سے متعدد بار باضابطہ طور پر رابطہ کیا اُنہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے خیبرپختونخو امیں امتیازی لوڈشیڈنگ، پن بجلی واجبات اور بقایاجات کی ادائیگی اور بجلی کے پیداواری منصوبوں کی اجازت کے حوالے سے ہمارے مطالبات کو درست تسلیم کرتے ہوئے انہیں پورا کرنے کے وعدے کئے لیکن ان کی تکمیل سے ہمیشہ گریز کرتی رہی اُنہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں ہمارے پاس اب کوئی چارہ نہیں ہے کہ ہم اپنے صوبے کے حقوق کیلئے کمربستہ ہو جائیں وزیراعلیٰ نے کہا کہ وفاقی حکومت خیبرپختونخوا کے عوام کو پسماندہ اور پریشان رکھنے کیلئے جان بوجھ کر انہیں حقوق سے محروم کر رہی ہے جو ہم اب کسی صورت برداشت نہیں کریں گے اُنہوں نے کہا کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ صوبے کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکی ہے اُنہوں نے بتایا کہ صوبے میں بجلی کی کل پیداوار 3500 میگاواٹ ہے 2400 میگا واٹ ہماری ضرورت ہے جبکہ صوبے کا شیئر 1400 میگاواٹ مقرر کیا گیا ہے لیکن افسوس کہ بجلی چوری اور ریکوری سمیت مختلف حیلے بہانوں سے یہ مقررہ حصہ بھی پورا نہیں دیا جارہا ہے جس کے باعث صوبے کے عوام وفاقی حکومت سے عاجز آچکے ہیں پرویز خٹک نے کہا کہ بجلی چوروں کوروکنا واپڈا کاکام ہے اور اس کیلئے واپڈا کو صوبائی حکومت کا مکمل تعاون حاصل ہو گا انہوں نے کہا کہ بجلی کی چوری دراصل واپڈا کے افسروں اور اہلکاروں کی ملی بھگت سے کی جاتی ہے اور اگر واپڈا کے چوروں کے خلاف ایکشن نہیں لیا جاتا تو اس کا یہی مطلب ہے کہ پوری وزارت پانی و بجلی خود ہی چور ہے اُنہوں نے کہا کہ چھ سے آٹھ گھنٹے لوڈشیڈنگ کے حوالے سے وزیر اعظم کے حکم پر پنجاب کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی عمل کیا جائے اور واپڈا کی چوری کو ہمارے صوبے کی چوری نہ کہا جائے اُنہوں نے کہا کہ ہم پولیس جیسے منہ زور ادارے کو ٹھیک کر سکتے ہیں تو واپڈا کو بھی ٹھیک کر سکتے ہیں اگر اسے ہمارے حوالے کردیا جائے وزیراعلیٰ نے مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت بجلی کی چوری خود پکڑے اور خیبرپختونخوا کو اس کے حصے کی 2400 میگاواٹ بجلی ہر صورت میں فراہم کرے اور اس کیلئے آٹھ نئے گڑد سٹیشنوں کی کمی پوری کرنے کے علاوہ سینکڑوں ٹرانسفارمر بھی مہیا کرے جن کیلئے صوبائی حکومت نے کافی عرصہ سے ادائیگی کر رکھی ہے اُنہوں نے کہا کہ پن بجلی کے خالص منافع کے واجبات کی ادائیگی میں بھی وفاقی حکومت اپنے وعدوں کے باوجود لیت و لعل سے کام لے رہی ہے پرویز خٹک نے کہا کہ ہم صوبے کی اضافی گیس اور آبی وسائل سے اپنی بجلی پیدا کرکے بیمار صنعتوں کی بحالی اور نئی صنعتکاری کے ذریعے بے روزگاری ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن وفاقی حکومت اس کی اجازت دینے سے بھی گریزاں ہے جبکہ کرک گیس فیلڈز میں غیر قانونی پائپ لائن بچھا کر نہ صرف قومی خزانے کو سالانہ ساڑھے چار ارب روپے کا نقصان پہنچایا جارہا ہے بلکہ مقامی آبادی کو گیس کی سہولت سے بھی محروم کیا جارہا ہے وزیراعلیٰ نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت کو چین کے ساتھ معاہدوں پر خوشی ہے لیکن ان منصوبوں میں ہمارے صوبے کو محروم رکھنے پر ہمیں گہری تشویش اور شدید تحفظات ہیں کیونکہ 76ارب ڈالر کے منصوبوں میں خیبرپختونخوا کا حصہ صرف 2.9 ارب رکھا گیا ہے اُنہوں نے کہا کہ اقتصادی راہداری کے اطراف میں آٹھ صنعتی شہروں کا قیام بھی شامل ہے لیکن ان میں سے ایک بھی خیبرپختونخوا میں نہیں رکھا گیا وزیراعلیٰ نے وفاقی حکومت سے ملنے والے پی ایس ڈی پی فنڈ کو بھی ناقابل تنسیخ بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ چھوٹے صوبوں کا گلا دبانے کیلئے اس فنڈ کو قابل تنسیخ(Lapseable) بنایا گیا ہے اُنہوں نے بتایا کہ اس استحصالی قاعدے کے باعث پچھلے دس سالوں میں صوبے کو 500 ارب روپے میں سے 220 ارب روپے ملے ہیں جبکہ رواں سال میں 88 ارب میں سے صرف 25 ارب روپے صوبے کو جاری کئے گئے ہیں انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کے ساتھ بات چیت بے سود ثابت ہوئی ہے اسلئے اب وقت آگیا ہے کہ منتخب نمائندے صوبے کے عوام کے حقوق کیلئے موثر حکمت عملی طے کرکے اس پر عمل کریں۔