اسلام آباد (آئی این پی )سابق صدر اور پیپلزپارٹی پارلیمینٹیرینز کے سربراہ آصف علی زرداری نے باضابطہ طور پر پاکستان پیپلزپارٹی کی کمان اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کے سپرد کردی ،پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کے صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ جمہوریت ہمیں تحفے میں ملی ہے ، ہم تو گڑھی خدا بخش دفن ہو جائیں گے مگر بلاول بھٹو زرداری اب کمان آپ کو سونپ رہا ہوں امید ہے
جس طرح آپ نے بینظیر بھٹو شہید اور میرے ساتھ وفا کی ہے اتنی ہی وفا بلاول بھٹو زرداری کیساتھ نبھائیں گے ۔منگل کو اسلام آباد پریڈ گراؤنڈ میں پاکستان پیپلزپارٹی کے 50ویں یوم تاسیس کے موقع پر جلسے کا انعقاد کیاگیا جس میں سابق صدر آصف علی زرداری نے پاکستان پیپلزپارٹی کی کمان اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کوسونپ دی۔جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کے صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ پاکستان میں سیاست سپر ہائی وے پر چڑھ چکی ہے ،جو بھی ہوگا،اب ووٹ کے ذریعے ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ جمہوریت ایک تحفہ ہے ، ہم نے جمہوریت کا تحفہ گڑھی خدابخش لیکر نہیں جانا ہے ،ہم تو گڑھی خدا بخش جا کر دفن ہو جائیں گے مگر آپ کو بلاول بھٹو زرداری سونپ کر جارہا ہوں امید ہے بلاول سے بھی اتنی ہی وفا کریں گے جتنی بی بی شہید اور میرے ساتھ کی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اقتدار میں آنے کی صورت میں پاکستان کو سوشو ڈیمو کریٹک ملک بنانے ، خواتین، اقلیتوں، غریبوں کیلئے اصلاحات لانے ، بے روزگاروں کوروزگار مہیا کرنے ،محکمہ پولیس اور عدالتی اصلاحات لانے پر توجہ دینے او ر ملک بھر میں حکومتی رٹ قائم کرنے کااعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں جب بھی آمریت مسلط یا شہریوں کے حقوق سلب کیے گئے تو پیپلزپارٹی نے علمِ بغاوت بلند کیا اور ہمیشہ مشکل حالات میں ملک کو سنبھالا، نوازشریف نے امیر المومنین بننا چاہا اور آئین میں ترمیم کرنے کی کوشش کی لیکن
شہید بے نظیر بھٹو نے نوازشریف کے منصوبے کو خاک میں ملادیا، بے نظیر نے پرویز مشرف کی دہشت گردی سے متعلق منافقانہ پالیسیوں پر آواز اٹھائی اور جب وہ واپس آئیں تو پورے ملک میں دہشت گردوں کو للکارا، دہشت گرد سوات سے پاکستان کا پرچم اتارنا چاہتے تھے لیکن بے نظیر نے ملک کو دہشتگردوں سے بچانے کا عزم کیا ،30 سال سیاست اور4 سال اقتدارمیں رہنے والی شہیدبی بی نے خواتین کے تحفظ کیلئے بہت اقدامات کیے،ایک خاتون دہشت گردوں کیخلاف لڑتی رہی جس کی مثال نہیں ملتی، ہم اقتداراپنی ذات یاپارٹی کیلئے نہیں بلکہ عوام کیلئے چاہتے ہیں، ہم ملک بچانا اورجمہوریت واپس لاناچاہتے تھے
اس لیے آصف زرداری نے پاکستان کھپے اورمیں نے جمہوریت بہترین انتقام کانعرہ لگایا، ملکی دولت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم چاہتے ہیں، پاکستان کوحقیقی سماجی جمہوری ملک بنائیں گے اس دھرتی کومیں بچاؤں گا اورآپ بچائیں گے، پیپلز پارٹی ہر اس شخص کی میراث ہے جس نے سرجھکانے پر سر کٹانے کو ترجیح دی ہے جو مذہب اور سیاست کے گٹھ جوڑ کو نہیں مانتا، اس میراث کے ہم سب وارث ہیں،پیپلز پارٹی نے آمریت اور جاگیرداروں کے خلاف مزاحمت کی، جب بھی اس ملک میں آمریت مسلط کر کے عوام کے حقوق سلب کئے گئے ،تب پیپلز پارٹی نے علم بغاوت بلند کیا،بے نظیربھٹو (شہید)عوام،
محنت کشوں اور کسانوں کی طاقت پر بھروسہ تھا، شہید بی بی نہ صرف جمہوریت کیلئے جدوجہد کرتی رہی بلکہ اسلام کا پر امن چہرہ بھی دنیا کے سامنے لائی،جمہوریت بہتر انتقام ہے، ہمارے قائدین کے پانچ اصول ہمارے لئے مشعل راہ ہیں، اسلام امن و محنت اور انسانیت کا دین ہے، ہم مساوات پر مبنی معاشرت چاہتے ہیں، جمہوریت کے بغیر وفاق قائم نہیں رہ سکتا، جنرل ضیاء نے اپنے اقتدار کیلئے اسلام کا استعمال کیا،عورتوں کے حقوق سلب کئے، جہاد کے نام پر دہشت گردی کو فروغ دیا،نواز شریف نے امیر المومنین بننے کیلئے آئین میں ترمیم کرنے کی کوشش کی مگر شہید بی بی ان کی راہ میں رکاوٹ بنیں،
وہ مذہب کو سیاست کیلئے استعمال کرنے کے خلاف جدوجہد کرتی رہیں، اسی طرح جنرل مشرف کی منافقانہ پولیسیز کی مخالفت کرتی رہیں،انہوں نے پوری دنیا کو بتایا کہ مشرف پاکستان سے دہشت گردی ختم کرنے میں سنجیدہ نہیں ،ضیاء الحق نے صرف پیپلز پارٹی کے قائد اور کارکنوں کو ہی پھانسی پر نہیں چڑھایا بلکہ سماج کے ترقی پسند عوام اور ان کی امیدوں کا خون بھی کیا، بھٹو کو پھانسی دے کر ضیاء اور اس کے حواری پہ سمجھنے لگے کہ پارٹی ختم ہو گئی مگر ایسا نہیں ہوا، اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ شہادت سے پہلے بھٹو نے اس عوام کا ہاتھ اپنی بہادر بیٹی کے ہاتھ میں دے دیا تھا، اس بہادر بیٹی نے اپنی عوام کا ہاتھ کبھی نہیں چھوڑا۔
وہ منگل کو پارلیمنٹ پیپلز پارٹی کے 50ویں یوم تاسیس کے موقع پر جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھنے والوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے آمریت اور جاگیرداروں کے خلاف مزاحمت کی، نصف صدی کے اس سفر میں پیپلز پارٹی نے انسانیت کا علم تھامے ہوئے کتنے صحراؤں سے گزرا، آج میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آگ اور خون کے کتنے دریا عبور کئے گئے، جب جب اس ملک میں آمریت مسلط کر کے عوام کے حقوق سلب کئے گئے ،تب تب پیپلز پارٹی نے علم بغاوت بلند کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تیسری نسل ہے جو اس قافلے کی روایات کو آگے بڑھا رہی ہیں، بھٹو تیسرا قافلہ رکا نہیں،تھما نہیں، بی بی تیسرا قافلہ رکا نہیں،تھما نہیں، 60اور70کی دہائی میں ملک میں آمریت اپنے پنجے گاڑ چکی تھی،
کوئی متفقہ آئین نہیں تھا،ملک مشرقی اور مغربی انتظامی تقسیم کا شکار تھا، ریاستی وسائل پر 22خاندانوں کا قبضہ تھا، غربت میں اضافہ ہورہا تھا، ملک کے غریبوں میں ایک اضطرابی کیفیت تھی، یہ اضطرابی کیفیت انقلابی کیفیت میں بدلی گئی۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ایسے حالات میں پیپلز پارٹی نے جنم لیا، یہ سماجی تاریخ کے نتیجے میں وجود میں آئی،1970کے انتخابات کے بعد ملک ایک انتہائی درد ناک سانحہ سے گزرا،ملک میں آمریت کی وجہ سے مشرقی اور مغربی پاکستان میں خلیج بڑھتی چلی گئیں،
سیاسی تناؤ کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ 1971کی تقسیم کے بعد جب بچاکھچا پاکستان نہیں سنبھالا گیا تو اقتدار شہید ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کر دیا گیا، یہ شکستہ پاکستان تھا، بھٹو شہید نے اپنے ساتھیوں اور پارٹی کارکنوں کی مدد سے سلگتی ہوئی راکھ سے ایک نئے ملک کی بنیاد رکھی اور ایک نئی ریاست تشکیل دی، بھٹو شہید نے پاکستانی ریاست کو جمہوری، پارلیمانی روایات پر اجاگر کیا اور ٹوٹی پھوٹی ریاست کو یکجا کیا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ
بھٹو شہید نے اقتدار سنبھالتے ہی 90ہزار جنگی قیدی واپس کروائے اور 5ہزار میل پاکستانی علاقہ ہندوستان سے واپس لیا، اس ملک کو پہلی مرتبہ متفقہ آئین دیا، بڑے بڑے ادارے بنا کر لوگوں کوروزگار دیا۔ انہوں نے کہا کہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کا آغاز کیا گیا، لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس بلا کر مسلم امہ کو ایک جگہ جمع کیا، ملک کو اٹامک پاور بنا کر دفعہ کو ناقابل تسخیر بنادیا، مگر اس کے بعد جمہوری پاکستان کے خلاف غیر جمہوری طاقتوں اور بین الاقوامی سطح پر سازشیں کی گئیں، یوں پاکستان کی تشکیل نو پر ایک وحشتناک حملہ کیا گیا، اس حملے میں صرف بھٹو شہید نہیں ہوئے بلکہ ملک اور سماج کی بنیادیں بھی ہل کر رہ گئیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ضیاء الحق نے صرف پیپلز پارٹی کے قائد اور کارکنوں کو ہی پھانسی پر نہیں چڑھایا بلکہ سماج کے ترقی پسند عوام اور ان کی امیدوں کا خون بھی کیا، بھٹو کو پھانسی دے کر ضیاء اور اس کے حواری پہ سمجھنے لگے کہ پارٹی ختم ہو گئی مگر ایسا نہیں ہوا، اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ شہادت سے پہلے بھٹو نے اس عوام کا ہاتھ اپنی بہادر بیٹی کے ہاتھ میں دے دیا تھا، اس بہادر بیٹی نے اپنی عوام کا ہاتھ کبھی نہیں چھوڑا، عوام کے حقوق اور انسانی اقدار کیلئے جون جولائی کی گرمی میں سکھر جیل کی قید تنہائی بھی ان کا حوصلہ نہیں توڑ سکی۔ انہوں نے کہا کہ
ملتان ایئرپورٹ پر شہید بی بی کو گھسیٹا گیا مگر وہ اٹل رہیں، وہ کیسے رکتی، وہ کیسے جھکتی وہ کیسے ڈرتی، وہ تو بے نظیر تھیں، وہ جدوجہد اور مزاحمت کرتی رہیں، وہ ایک نہتی لڑکی تھی مگر اسے عوام، محنت کشوں اور کسانوں کی طاقت پر بھروسہ تھا، شہید بی بی نہ صرف جمہوریت کیلئے جدوجہد کرتی رہی بلکہ اسلام کا پر امن چہرہ بھی دنیا کے سامنے لائی۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ جنرل ضیاء نے اپنے اقتدار کیلئے اسلام کا استعمال کیا، اسلام کے نام پر عورتوں کے حقوق سلب کئے، جہاد کے نام پر دہشت گردی کو فروغ دیا،
اس کے بعد نواز شریف نے بھی امیر المومنین بننے کیلئے آئین میں ترمیم کرنے کی کوشش کی مگر شہید بی بی ان کی راہ میں رکاوٹ بنیں، وہ مذہب کو سیاست کیلئے استعمال کرنے کے خلاف جدوجہد کرتی رہیں، اسی طرح جنرل مشرف کی منافقانہ پولیسیز کی مخالفت کرتی رہیں،انہوں نے پوری دنیا کو بتایا کہ مشرف پاکستان سے دہشت گردی ختم کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ مشرف دوغبی پالیسی پر عمل پیرا رہے، شہید بی بی نے وطن واپس آ کر پورے ملک میں دہشت گردوں کو للکارا۔
انہوں نے کہا کہ یہ دھرتی پکار رہی ہے کہ میں خطرے میں ہوں، یہ دھرتی آپ کو پکار رہی ہے اسے آپ بچاؤ گے ، اسے میں بچاؤں گا، چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ دنیا میں کوئی ایک مثال بتائیں جس میں ایک نہتی لڑکی مسلح دہشت گردوں کو للکارتی رہی ہو، اسی لئے تو کہا جاتا تھا ،ڈرتے ہیں بندوقوں والے ، ایک نہتی لڑکی سے، ہماری بی بی شہید 30سال سیاست اور چار سال اقتدار میں رہیں، 26سال انہوں نے جدوجہد میں گزارے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ بی بی نے جمہوریت کے خلاف سازشوں کا مقابلہ کیا،عورتوں کے حقوق کیلئے کام کیا، ملک بھر میں ویمن پولیس سٹیشن بنائے، فرسٹ ویمن بینک،
ویمن افیئرز منسٹری کا قیام، ٹریڈ یونین سے پابندی اٹھائی، غازی بروتھا اور نیلم جہلم کے منصوبوں شروع کئے، کسانوں کیلئے بلا سود قرضے اور سپورٹ پرائس دی، اسی طرح صدر زرداری کے دور میں بھی بے زمین عورتوں کو زمین کا مالک بنایا گیا، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا گیا، نواز شریف اور مشرف کے دور میں نکالے گئے ملازمین کو بحال کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کنٹریکٹ ملازمین کو مستقبل کیا گیا، تنخواہ اور پینشنز میں اضافہ کیا گیا، سی پیک کی بنیاد رکھی گئی، اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے آئین کو اصل حالت میں بحال کیا گیا، پورے سندھ میں بھی اربوں روپے کی لاگت سے دریا پر پل اور چالیس ڈیمز بنائے گئے،
نہریں پکی کی گئیں، تعلیم اور صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کی گئی، سکول جانے والی لڑکیوں کو ساڑھے تین ہزار روپے دیئے جا رہے ہیں، چھوٹے شہروں میں بھی ہسپتال بنائے جا رہے ہیں، جہاں عوام کا مفت علاج ہوتا ہے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ وراثت اور میراث میں فرق ہوتا ہے، پیپلز پارٹی ہر اس شخص کی میراث ہے جس نے سرجھکانے پر سر کٹانے کو ترجیح دی ہے جو مذہب اور سیاست کے گٹھ جوڑ کو نہیں مانتا، اس میراث کے ہم سب وارث ہیں،بی بی کی شہادت کے بعد ملک جل رہا تھا،
ایسے وقت میں پارٹی کی قیادت نے مجھے اس پارٹی کی ذمہ داری دی، پارٹی قیادت سنبھالنے کے بعد میں نے لوگوں کے غصے کو کم کرنا تھا اور ملک کو پھر سے جمہوریت کے راستے پر گامزن کرنا تھا، ہم نہیں چاہتے تھے کہ ملک میں افراتفری پھیلے اور الیکشن ملتوی ہوں، ہم نے ہمیشہ غیر معمولی حالات میں اقتدار سنبھال کر ملکی معاملات کو معمول پر لائے، ہم آج بھی سمجھتے ہیں کہ جمہوریت بہتر انتقام ہے، ہمارے قائدین کے پانچ اصول ہمارے لئے مشعل راہ ہیں، اسلام امن و محنت اور انسانیت کا دین ہے، ہم مساوات پر مبنی معاشرت چاہتے ہیں، جمہوریت کے بغیر وفاق قائم نہیں رہ سکتا،
اس ملک کیلئے جب بھی ضرورت پڑی ہم نے شہادتیں قبول کیں، یہی ہمارا عمل ہے۔بلاو ل نے کہا کہ ہم پاکستان کو سوشو ڈیمو کریٹک ملک بنائیں گے، ہم ملک میں خواتین، اقلیتوں، غریبوں کیلئے اصلاحات لائیں گے، بے روزگاروں کیلئے حکومت خود روزگار مہیا کرے گی، آئندہ کی سیاست میں ہماری پولیس اور عدالتی اصلاحات لانے پر توجہ ہو گی، ہم حکومت کی رٹ قائم کریں گے، ہمیں بھٹو اور بی بی شہید کا پاکستان قائم کرنے کیلئے ابھی کئی آگ کے دریا عبور کرنے ہیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ قسم کھاؤ شہید بھٹو اور بی بی شہید کی روح کی کہ ہم سب ان کے نظریے کو حقیقت کا روپ دے کر رہیں گے۔(اح)