منگل‬‮ ، 26 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

پریوں کا پربت۔۔۔نانگا پربت

datetime 4  اگست‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

مقامی آبادی کا عقیدہ ہے نانگا پربت کی چوٹی پریوں کی ملکہ کی رہائش گاہ ہے‘ داستانوں میں آیا ہے کہ وہ ایک ایسے برفانی قلعے میں رہتی ہے جو شفاف اور دبیز برف کا بنا ہوا ہے

142058146_8ecf29aafb

قدرت کی نیز نگیوں اور مناظر کا انسان کی روحانی مسرت اور فیضان سے ہمیشہ ایک گہرا تعلق رہا ہے۔ لہلہاتے کھیت ہوں ‘دشت و صحرا پھیلی ہوئی شاداب وادیاں ہوں یا سمٹے ہوئے دامان کوہ‘ سوچنے اور سمجھنے والے کے لیے

مزید پڑھئے: کرپشن،سندھ حکومت نے وفاقی اداروں کے چھاپوں کے خاتمے کیلئے ”بہترین حل“ ڈھونڈ نکالا

ان سب میں ایک پیغام پنہاں ہے۔ ایسے تمام مقامات رو حانی مسرت حاصل کرنے کا ایک موثر ذریعہ ہوتے ہیں:
علم کے حیرت کدہ میں ہے کہاں اس کی نمود
گل کی پتی میں نظر آتا ہے رازِ ہست و بود
اردو کا سب سے بڑا طنز گو شاعر اکبر بھی جب قدرت کو اس کے اصلی روپ میں دیکھتا ہے تو طنز و مزاح کو چھوڑ کر یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے:
مجھ کو دیوانہ بنا دیتا ہے فطرت کا جمال
عارض گل سے خبر ملتی ہے روئے یار کی

142058146_8ecf29aafb
قدرت کی ان فیاضیوں سے ویسے تو ہر شخض اپنے شہر کی کال کو ٹھری سے باہر نکل کر پچھلے پہر کو طلوع و غروب آفتاب کے وقت یاتاروں بھری راتوں میں کسب فیض کرسکتا ہے لیکن قدرت کا یہ حسن اگر پوری بہار پر دیکھناہو تو شمال کے فلک بوس اور برف پوش پہاڑوں سے زیادہ موزوں کوئی مقام نہیں۔ ان ہی پہاڑوں میں قدرت کی ایک حسین و جمیل جلوہ گاہ نانگا پربت کی برف پوش چوٹی ہے۔ جہا ں خالق کائنات کی عظمت و جلال اس کے حسن و جمال کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ یہاں انسان خود کو قدرت سے قریب ہی نہیں بلکہ قدرت کی گود میں پاتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں خدا کی کبریائی کے سامنے سر بسجود ہو جانے کو جی چاہتا ہے ۔

fm_bealcrossed3
نانگا پربت کو کلر ماؤنٹین یعنی قاتل پہاڑ بھی کہا جاتا ہے ۔اسے سب سے پہلے سر کرنے کا سہرا ایک جرمن آسٹریلین ہر من کے سر بندھا جس نے ۳ جولائی ۱۹۵۳ء میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے علاوہ اطالیہ سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور کوہ پیما مسیسنر ہے جس نے اسے سر کیا ۔ یہ شخض کوہ پیما ئی کا ایک معجزہ ہے‘ ایک عجوبہ ہے ایک تو وہ تن تنہا چوٹی تک پہنچتا ہے اور دوسرا یہ کہ بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ پر بھی وہ آکسیجن کے بغیر جاتا ہے کیونکہ اسکے پھپھڑوں میں قدرت کی طرف سے ایسی گنجائش رکھی گئی ہے کہ وہ بلندی پر بھی کام کر تے رہتے ہیں۔ مسیسنر نے دنیا کی قریباََ تمام بلند چوٹیوں کو اپنے قدموں تلے روندا ہے جس میں نانگا پر بت بھی ایک ہے ۔نانگا پربت کی چوٹی پر برف نہیں ٹھہرتی اس لیے اسے ’’نانگا پہاڑ ‘‘ کہا جا تا ہے۔ نانگا پربت جانے والے کوہ پیماء کے راستے میں رائے کوٹ کا خوبصورت پل جس کے بہت نیچے سندھ کا مٹیالا پانی ایک گہری گونج کیساتھ بہتا ہے۔ پل کے بائیں ہاتھ پولیس کیبن اور دا ئیں جانب شنگر یلا کے ساتھ ایک پتھریلا راستہ اوپر جاتا ہے۔ نانگا پربت محض ایک پہاڑ نہیں یہ ایک طلسم ہے جو ہر دیکھنے والی آنکھ کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے ۔ یہ طلسم دوسو سال سے کوہ پیماؤں کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے لیکن جو بھی اس کی طرف جاتا ہے وہ واپس نہیںآتا اسی وجہ سے اسے کلر ماؤنٹین ( قاتل پہاڑ) کہا جاتا ہے۔

5065294_orig
نانگا پربت کے قدموں میں ایک طویل گلیشئیر سجدہ کناں ہے گلیشئیر کا سر نانگا پربت کے قدموں میں ہے اور تیس چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر جنگل کے درمیان فیری میڈو ہے۔ پریوں کا مسکن ‘پریوں کی چراگاہ ہو شر با حسن و طلسم کی وجہ سے آسٹریلین کوہ پیماء ہر من کو ہل نے ۱۹۵۳ء میں اسے فیری میڈو (Fairy meadows) کا نام دیا تھا۔فیری میڈوز ایک افسانوی شہرت رکھتی ہے ۔ تاروں بھری رات میں بلندیوں سے اتر کر یہاں رقص کرنے والی پریوں کے قصے لوک داستانوں کا حصہ بن چکے ہیں۔ مقامی آبادی کا عقیدہ ہے کہ نانگا پربت کی چوٹی پریوں کی ملکہ کی رہائش گاہ ہے۔ داستانوں میں آیا ہے کہ وہ ایک ایسے برفانی قلعے میں رہتی ہے جو شفاف اور دبیز برف کا بنا ہوا ہے اور برف کے بڑے بڑے مینڈک اور برف کے ایسے سانپ جو کئی کلومیٹر لمبے ہیں اس ملکہ کی حفاظت پر مامور ہیں اور ان علاقوں میں ر ہنے والی عورتیں رنگین کپڑوں اور شوخ زیوروں سے اجتناب کرتی ہیں کیونکہ انہیں پہننے سے پریاں ان سے حسد کرسکتی ہیں اور ان پر جادو کرسکتی ہیں۔ پامیر اور تبت ’’ بام دنیا ‘‘ کہلاتے ہیں لیکن وہاں بھی کوئی پہا ڑ نانگا پر بت سے اونچا نہیں ۔ یہ فخر صرف ہمالیہ اور قراقرم کو حاصل ہے۔ اگرنانگا پربت دنیا کی چھٹی اونچی چوٹی ہے تو اس کو دوسری بلند تر چوٹیوں کے مقابلے میں کیوں پر شکوہ سمجھا جاتا ہے؟ نانگا پربت کے پر شکوہ ہونے کی وجہ اس کی شدت کے ساتھ ترشی ہوئی کھڑی چٹانیں اور ڈھلا نیں ہیں ۔ یہ چٹانیں عمودی شکل میں چلی گئی ہیں۔ یہ چٹانیں شمال میں سطح زمین سے صرف 142/1میل کر اندر 23ہزار ایک سو فٹ کی بلندی تک پہنچ جاتی ہیں۔ نانگا پربت کے پر شکوہ ہونے کی دوسری وجہ اس کی وسعت ہے۔ ایک امریکی جان کلارک نے اپنی کتاب ’’ ہنزہ ‘‘ میں لکھا ہے:
’’ ہمارا طیارہ دریائے سندھ کے بڑے موڑ کے ساتھ ساتھ اڑ رہا تھا۔نانگا پربت ہمارے داہنے طرف تھا۔ اس کی خوفناک چوٹی ہم سے دو میل اونچی تھی۔یہ چوٹی ایسی دیو پیکر تھی کہ ہمیں اس کے پاس سے گزرنے میں پورے پندرہ منٹ لگ گئے۔‘‘

nanga_parbat__view_point_by_khanjkkhan-d49x2fl
مشہور امریکی رسالے’’نیشنل جیو گرافک ‘‘ میں ایک مضمون نگار لکھتا ہے:
’’ ایک ایسا شخض جو پہلی مرتبہ طیارے سے سفر کر رہا ہو جب یہ دیکھتا ہے کہ نانگا پربت جس کی چوٹی بادلوں میں چھپی ہوئی ہے اچانک ایک دیوارکی طرح سامنے آتی ہے اور دیکھنے والاخوف سے کانپ جاتا ہے۔ ‘‘
نانگا پربت کے پر شکوہ ہونے کی تیسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ دور دور تک کوئی دوسرا پہاڑ اس کے مد مقابل نہیں ہے۔ نانگا پر بت کا دل آویز نظارہ کرنے کے لیے کوہ بابو سر اگرچہ مناسب جگہ ہے اور کم ازکم اب تک یہی وہ واحد مقام ہے جہاں مسافر اور سیاح آسانی سے پہنچ سکتے ہیں۔ نانگا پر بت کا برف پوش پہاڑ پاکستان کو قدرت کا ایک ایسا عطیہ ہے جس پر ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں ۔ نانگا پربت کا حسن اور اس کی دلکشی ایک انفرادیت رکھتی ہے۔ اس کی مثال نہ کا غان کی حسین وادی پیش کر سکتی اور نہ سوئٹزر لینڈ۔



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…