اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) اردن کے رائل اسلامک اسٹریٹجک اسٹڈیز سینٹر نے دنیا بھر کی 500 با اثر ترین مسلم شخصیات سے متعلق اپنی 2018 کی رپورٹ جاری کردی۔اسلامک اسٹڈیز سینٹر کی شائع ہونے والی رپورٹ 272 صفحات پر مشتمل ہے جس میں اسلامی دنیا کی سب سے بااثر شخصیت الاظہر یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر شیخ احمد کو قرار دیا گیا۔ رپورٹ میں سعودی عرب کے فرماں روا سلمان بن عبدالعزیز کو دوسرے نمبر پر، اردن کے بادشاہ عبداللہ ثانی کو تیسرے،
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو چوتھے، ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان کو پانچویں، مراکش کے بادشاہ محمد چھٹے اور پاکستان کی معروف مذہبی شخصیت مفتی تقی عثمانی کو فہرست میں ساتویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔اس کے علاوہ اسلامی ممالک کی 500 بااثر شخصیات میں پاکستان کے سابق وزیراعظم نوازشریف، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان، جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ فضل الرحمن اور ملالہ یوسفزئی سمیت درجنوں پاکستانیوں کو بھی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ان کے علاوہ پاکستان میں تبلیغی جماعت کے سربراہ حاجی محمد عبدالوہاب، علامہ ساجد نقوی اور سراج الحق کو بھی بااثر اسلامی شخصیات میں شامل کیا گیا ہے جبکہ علامہ الیاس قادری، مولانا طارق جمیل، پروفیسر عطاء الرحمن، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا تذکرہ بھی مذکورہ رپورٹ میں موجود ہے۔ادھر فلاحی کاموں کے حوالے سے مرحوم سماجی کارکن عبدالستار ایدھی کی اہلیہ بلقیس ایدھی اور انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے کے سلسلے میں عاصمہ جہانگیر کا تذکرہ بھی رپورٹ میں موجود اس کے علاوہ اسلامی ممالک کی بااثر آوازوں میں پاکستان سے گلوکارہ عابدہ پروین اور نعت خواں اویس رضا قادری کو بھی 500 افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔دوسری جانب مذکورہ رپورٹ میں بھارت سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ذاکر نائیک اور پاکستان میں تبلیغی جماعت سے
منسلک مولانا طارق جمیل کو رپورٹ میں مذہبی رہنماؤں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔500 افراد کے ناموں پر مشتمل اس فہرست میں 33 پاکستانی شہریوں کے نام شامل کیے گئے تھے جن میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمٰن) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر اور تبلیغی جماعت کے مولانا طارق جمیل بھی شامل ہیں۔اس فہرست میں شامل افراد کو 13 مختلف شعبوں میں ان کی خدمات کے تناظر میں پرکھا گیا ہے جن میں خدمت خلق، فن و ثقافت، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، سیاست اور مذہبی امور شامل ہیں۔