اتوار‬‮ ، 29 دسمبر‬‮ 2024 

دس ایسی عادتیں جو آ پ کوبیماراور مو ٹاپے میں مبتلا کر سکتی ہیں

datetime 20  اپریل‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (نیوز ڈیسک )کھانے پینے کے معمولات میں تھوڑا سا فرق بھی طویل دورانیئے میں انسانی صحت پر مثبت یا منفی اثرات پیدا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ افراد جو کہ رات میں ہلکی پھلکی غذا لیتے ہیں اور دس سے پندرہ منٹ کے لئے چہل قدمی کرتے ہیں، رات کے وقت مرغن غذائیں لینے والوں سے موازنے میں زیادہ بہتر صحت کے حامل ہوتے ہیں۔ دونوں طرح کے افراد کے دن بھر کے معمولات ایک جیسے ہونے کے باوجود محض ایک وقت کے کھانے میں تبدیلی کے ان کے صحت پر رونما ہونے والے اثرات یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ غذائی انتخاب میں انتہائی باریک بینی سے لئے گئے جائزے اور اس کی روشنی میں فیصلہ سازی کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ کی معمولی سی غلطی آپ کو موٹا یا بیمار بھی کرسکتی ہے۔ اس حوالے سے ماہرین عام طور پر بیمار رہنے والے اور فربہ جسامت کے حامل افراد کے جائزے سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ان میں چند عادات قدر مشترک کی مانند پائی گئی ہیں۔ماہرین کا اندازہ ہے کہ دراصل یہی وہ عادات ہیں جو ان کے ورزش اور کھانے پینے میں احتیاط کے باوجود بھی ان کے موٹاپے کا باعث ہیں۔ وہ دس عادات مندرجہ ذیل ہیں۔
کچھ افراد پانی کی وافر مقدار پینے کی اہمیت سے تو واقف ہوتے ہیں تاہم وہ اس جانب دھیان نہیں دیتے ہیں کہ ان کے پانی پینے کا ذریعہ کیا ہے۔ پلاسٹک کی بوتلیں جو کہ عام طور پر بی پی اے سے تیار کی جاتی ہیں، مردوں اور عورتوں میں بانجھ پن پیدا کرنے کے علاوہ موٹاپے کا باعث بھی ہوتی ہیں جس سے اکثریت لاعلم ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ہارورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق بھی موجود ہے جس کے مطابق وہ افراد جن کے پیشاب میں بی او پی کی زیادہ مقدار پائی گئی ان کی کمر کا حجم بھی دوسروں سے زیادہ تھا۔
دفتری اوقات میں ذہنی دباو¿ کے عالم میں بھی کچھ لوگ اپنے کھانے پینے کی عادات پر قابو رکھتے ہیں لیکن دفتر سے باہر آنے کے بعد وہ خود کو اس دباو¿ سے آزاد کروانے میں ناکام رہتے ہیں۔ دفتر سے فرصت کے بعد یوگا کیجیئے، دوستوں کے ساتھ گھومیئے اور خودکو ٹیکنالوجی کے اثرات یعنی کہ کمپیوٹر، لیپ ٹاپس اور موبائلز وغیرہ سے دور کیجئے۔
کھانے پینے کے علاوہ سونے اور جاگنے کے معمولات میں بھی صحت مند رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ رات گئے تک جاگنا ، خواہ کاموں کیلئے ہو یا تفریح کیلئے، دونوں صورتوں میں یہ وزن بڑھانے کا باعث ہوتا ہے، اس کے علاوہ انزائٹی، ڈپریشن اور انسولین کی سطح بھی خون میں بلند ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔کچھ افراد خاص طرح کے ڈائٹنگ منصوبوں پر عمل کرتے ہیں۔ اس طرح کے ڈائٹنگ منصوبوں سے تیزی سے وزن تو کم ہوتا ہے لیکن جسم میں خاص طرح کے نمکیات کی کمی بھی واقع ہونے لگتی ہے۔ جسم میں نمکیات کاتوازن بگڑنے سے بھی موٹاپا اور بیمار پڑنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
اگر آپ کی غذا صحت مند اشیا پر مشتمل ہے تو اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ اس کی زیادہ مقدار لینا شروع کر دی جائے۔ کچھ لوگ ہوٹل کے کھانوں پر گھر کے کھانوں کو بخوشی ترجیح تو دیتے ہیں لیکن کیلوریز کی مقدار بھی بڑھا دیتے ہیں، اس سے کوئی فائدہ ممکن نہیں ہے۔
کچھ افراد سالانہ چیک اپ تو کرواتے ہیں لیکن انہیں یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے جسم میں نمکیات کا توازن کیا ہے۔ یاد رکھیئے کہ کولیسٹرول ، ذیابیطس ہی صرف خطرناک بیماریاں نہیں ہیں بلکہ اگر جسم میں وٹامن ڈی کی کمی واقع ہوتی ہے تو اس سے بھی ہڈیوں کی بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں جو کہ زیادہ خطرناک ہوسکتی ہے کیونکہ اس طرح چلنا پھرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے اور یوں صحت کے ان گنت مسائل پیدا ہوجاتے ہں۔
چکنائی کے حوالے سے معلومات کی کمی بھی انسانی جسم کیلئے نقصان دہ ہوسکتی ہے، یاد رکھیں کہ ٹرانس فیٹس امراض قلب کیلئے نقصان دہ ہیں لیکن سبزیوں سے نکالا جانے والا تیل انسانی صحت کیلئے مفید ہوتا ہے۔ ان میں موجود وٹامن پیٹ بھرا ہونے کا احساس بیدار کرتے ہیں اور اس طرح کھانے پینے کی مقدار خود بخود ہی کم ہوجاتی ہے۔
ہوٹلوں کے کھانوں میں ذائقہ پیدا کرنے کیلئے مکھن وافر مقدار میں استعمال کیا جاتا ہے، ضروری نہیں ہے کہ اگر آپ نے سبزیوں کی تیار کردہ کوئی سٹر فرائیڈ ڈش آرڈر کی ہے تو اس میں واقعی سبزیوں کو سٹر فرائیڈ ہی کیا گیا ہوگا، یہ بھی ممکن ہے کہ اس میں مکھن وغیرہ بھی استعمال کیا گیا ہو جس سے اس سے حاصل ہونے والی کیلوریز کی مقدار بڑھ سکتی ہے۔
اکثریت اپنے کھانے پینے کی مقدار پر تو دھیان دیتی ہے تاہم سوڈیم کی مقدار پر دھیان نہیں دیا جاتا ہے۔ یاد رکھیں کہ سوڈیم جس کا سب سے بڑا ذریعہ خوردنی نمک ہے۔ سوڈیم، بازار سے محفوظ شدہ کھانوں میں بھی وافر مقدار میں پایا جاتا ہے جو کہ بلڈ پریشر اور امراض قلب کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔
ڈائٹنگ پر موجود لوگ بازار سے ملنے والی اشیا میں ڈائٹ والوں کیلئے بطور خاص تیار کرنے والے کھانوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ عام طور پر ایسے کھانوں کا ذائقہ زیادہ خوشگوار نہیں ہوتا ہے، ایسے میں اسے مزیدار بنانے کیلئے طرح طرح کے خطرناک حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔ کچھ کمپنیز ایسی اشیا بھی ان میں شامل کردیتے ہیں جس سے ان سے نشے کی کیفیت بھی پیدا ہونے لگتی ہے اور یوں کوئی بھی فرد ان کا عادی ہونے لگتا ہے۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ عام طور پر دستیاب اشیا ہی کھائی جائیں تاہم ان کی مقدار کم کی جائے۔



کالم



صدقہ


وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…

کرسمس

رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…