کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) کالا باغ ڈیم کے بعد مردم شماری سب سے اہم ایشو ہے لیکن مجھے اس حوالے سے آپ لوگوں کی سنجیدگی نظر نہیں آرہی ہے ۔میں واضح کردینا چاہتاہوں کہ مردم شماری کے حوالے سے سپریم کورٹ نے آرڈر کیا کہ مارچ 2017 میں مردم شماری کرائی جائے 16دسمبر2016 کو اسلام آباد میں سی سی آئی کا اجلاس ہوا اور اس میں یہ فیصلہ ہوا کہ 15مارچ 2017سے مردم شماری ہوگی اور دو مرحلوں میں ہوگی اور اسی طریقے سے ہوگی
ہمارے پاس مردم شماری کے حوالے سے ایک قانون موجود ہے، اس سلسلے میں ایک فارم دیا ہوا ہے فارم ٹو جو گھر گھر جاکے اور وہاں سے تفصیلات لی گئی اور اس کے بعد پورے ملک کو بلاکس میں تقسیم کیاگیا 250سے 300گھر ایک بلاک میں ہوں گے۔ ڈیفینشری بلاکس بن کے آگئے اس پر سندھ حکومت نے اعتراضات کیے اور اسی وجہ سے کافی بلاک ری کنسیڈر ہوئے خاص طورپر کراچی شہر میں حکومت بڑی ویجیلنٹ تھی کہ یہ کس طریقے سے ہورہا ہے تو جیسے ہی مردم شماری کا عمل شروع ہوا اس میں کچھ شکایتیں آئیں ابھی جیسا کہ آپ لوگوں نے بتایا کہ پنسلوں سے لکھا جارہاتھا ان سب چیزوں پر فوری نوٹس لیا گیا وفاقی حکومت سے بات کی گئی اور اس وقت وفاقی وزیر خزانہ کے پاس یہ قلمندان تھا اور ان سے بات کی گئی اور ان سے ذاتی طورپر بھی میری بات ہوئی اور اس کے بعد میں نے ان کو 10مارچ کو ایک خط لکھا اور میں نے ان کو یہی بتایا کہ اس عمل سے لوگ تھوڑے سے ناراض ہیں کہ یہ آپ لوگ شفاف طریقے سے نہیں کررہے ہیں اورمیرے خط کے متن میں بھی ہے اس میں کہا تھا کہ یہ ہمارا ہی نہیں بلکہ پورے ملک کا بھی ویو ہے کہ ہم اس کو شفاف طریقے سے کریں تاکہ ہر ایک آدمی اس مردم شماری پر یقین کرے کہ یہ صحیح ہے۔نہیں تو آخر میں یہ ہوگا کہ سب ناراض ہوں گے کوئی بھی راضی نہیں ہوگا۔
تو خط میں میں نے یہی کچھ لکھا اور میں نے کچھ تجاویز بھی دیں۔ اس سلسلے میں میں نے کہا کہ سب سے پہلے جو فارم ٹو ہے جس گھر سے آپ فارم ٹو بھرواتے ہیں گھر میں کتنے افراد ہیں اور ان کی عمریں یہ ہیں جو ایک طرح سے فارم بن رہے تھے۔ اس کی ایک کاپی کمیشن کا جو ہیڈ ہے اس کے پاس ایک کاپی ہو تی کہ اس کے پاس ریکارڈ توہو آبادی کا جو ایشو ہے یہ بڑا اہم ہے اور سارے لوگوں نے یہ بات بتائی کہ اس پر ہمارے وسائل کا انحصار ہے ہماری نمائندگی قومی اسمبلی میں اسی پر انحصار کرتی ہے
مجموعی طورپر صوبے کی بات کریں تواتنی اہم چیزیں ہیں اور کام اس طرح سے ہونا چاہیے کہ سب لوگ اس پر خوش ہوں اور کام شفاف طریقے سے ہونا چاہیے اور دوسری میں نے یہ تجویز دی کہ ہر بلاک میں 250سے 300گھر رکھیں ،ان 250سے 300گھروں کے بارے میں ابھی جیسے وزیر قانون نے بتایا ایک فارم بنتا ہے آر ای این ٹو۔ اس بلاک کا اعداد اور شمار ختم ہو یہ آر ای این ٹو فارم کے سلسلے میں یہ کرتے کیا ہیں 250اگر گھر ہیں تو 250فارم پر ہوں گے۔اور ان 250فارم ٹو کا ڈیٹا کو ایک صفحہ پر
لے آتے کہ اس پورے بلاک میں اتنے گھر ہیں 250سے 270گھر ہیں اس میں اتنے مرد ہیں اتنی خواتین ہیں اور یہ سارا ڈیٹا ایک صفحہ پر آجاتا میں نے ان سے کہا کہ یہ آر ای این ٹو جیسے مکمل ہو اس کو آپ مردم شماری کے دفتر میں بھی لگا دیں اور اس کو اپنی ویب سائٹ پربھی ڈال دیں اور اس کا مقصد بھی میں نے کہا یہ تھا کیوں کہ ہر ایک کو مردم شماری میں دلچسپی ہے آج مجھے افسوس ہے کہ اراکین اسمبلی کو اس میں ان کی دلچسپی مجھے نظر نہیں آئی ۔بیانات کی حد تو ہر ایک کواس میں دلچسپی ہے۔
اگر ہر ایک اسٹیک ہولڈر چاہے وہ پولیٹیکل ہو یا کوئی سوشل ایکٹیوسٹ ہو اس علاقے کا اس کے پاس وہ آر ای این ٹو فارم کی کاپی ویب سائٹ پر ہوگی میں اگر اپنے گاں ، اپنے محلے میں یا اپنے یونین کانسل میں میں جو بلاک ہے اس میں مجھے یہ دلچسپی ہوگی کہ اس کی کتنی آبادی ہوگی اور اگر اس میں یہ بتا یا گیا کہ اس بلاک کی آبادی 600ہے اور میں اگر یہ سمجھتا ہوں کہ یہ غلط ہے تو بحیثیت سوشل ایکٹیوسٹ میں ایک ایک گھر میں جاکے وہ فارم ٹو لوں میں اس کے اوپر اپنی درخواست دوں کسی بھی فورم پر اور میں آپ سے کہوں یہ انفارمیشن ہے اگر تعداد 800ہے تو میں وہ بتاں گا اور اگر 600ہے تو میں چپ کر کے بیٹھ جاں گا۔
اور اگر تعداد غلط ہو گی تو میں بتاں گا کہ جی اس میں یہ غلطی ہے مہربانی کرکے یا تو اس بلاک کی دوبارہ گنتی کرلیں یا پھر میری بات مان لیں یہ تین تجاویز میں نے 10مارچ کو ان کو دی تھیں 14مارچ کو ان کا جواب آگیا میرے پاس اور انھوں نے بڑا شکریہ ادا کیا کہ سندھ حکومت جو ہے مردم شماری میں مدد کررہی ہے اور مردم شماری مناسب اور شفاف طریقے سے ہونی چاہیے لیکن آپ نے جو تجاویز دیں ہیں وہ ممکن نہیں ہیں اس لیے کہ یہ کنفیڈیشنل انفارمیشن ہیں لہذا ہم نہیں دے سکتے۔اس کے بعد میں نے دوبارہ ان کو فون کیا
اور ان سے میں نے کہا کہ یہ اگر کنفیڈیشنل انفارمیشن ہے آپ صرف گھر کے سربراہ کو بتائیں کسی اور کو نہ بتائیں میری بات جو میں نے آپ کو بتائی وہ مجھ سے کیا چھپانی اس بات کو تو قانون بھی آپ کو نہیں روکتا اور اگر میں یہ انفارمیشن بعد میں کسی کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں تو یہ میرا حق ہے ۔اگر میں زبانی کلامی کہوں گا تو کہیں گے تو غلط ہے۔ میرے پاس فارم کی کاپی ہوگی تو زیادہ بہتر ہوگا ۔انہوں نے جو جواب لکھا تھا مجھے اس میں انہوں نے کہاتھا کہ انہیں اس بات سے تو اتفا ق ہے کہ مردم شماری شفاف طریقے سے ہونی چاہیے
اور انہوں نے یہ کہا کہ آرمڈ فورسز ساتھ ہیں لہذا یہ سب شفاف ہے اور انہوں نے اس طرح سے بات ہی ختم کردی خیر جو کوشش میں کرسکتا تھا وہ میں نے کی مردم شماری کا کام ہم روک نہیں سکتے تھے مردم شماری آئینی ضرورت ہے کیونکہ پچھلی مردم شماری 1998میں ہوئی تھی اور اس کے بعد 2008میں ہوئی تھی 9سال پہلے ہی تاخیر ہوچکی تھی اس کو روکنے کا تو کوئی جواز نہیں تھا اور صرف یہی کوشش تھی کہ جتنا شفاف ہو سکے ہو۔اب اڑتے اڑتے مردم شماری کے نتائج سی سی آئی کا اجلاس جو کہ 25اگست کو تھا
اس اجلاس میں انہوں نے مردم شماری کے پرویزنل نتائج پیش کیے جو کہ 20تا25صفحوں پر مشتمل پریزنٹیشن تھی اور اگر کوئی یہ دیکھنا چاہے اس کو دکھاں گا اور میں نے اسی اجلاس میں بیٹھے ہوئے اس پر اپنی کیلکولیشن شروع کردی تھی اور میں نییہی کہاتھا کہ میں اس پرفوری طورپر کوئی تبصرہ نہیں کرسکتا کہ یہ صحیح یا غلط ہے۔مجھے کیا پتہ اور اس میں یہ بتایا گیا تھا کہ یہ ایک پرویزنل رزلٹ ہے اور ابھی فائنل ہوں گے۔اجازت یہ مانگی گئی کہ پرویزنل نتائج کو پبلک کیا جائے منظوری کسی بھی چیز کی نہیں تھی
اس اجلاس میں سندھ کی طرف سے وفاق کا بھی ایک نمائندہ موجود تھا اور یہ اس پورے اجلاس کے منٹس موجود ہیں میں وہاں پر بولا تھا اور ان سے کہا تھا کہ ان نتائج کی منظوری نہیں ہوئی ہے تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے منظوری تو مانگی ہی نہیں ہے ہم صرف یہ مانگ رہے ہیں کہ یہ پرویزنل نتائج پبلک کیے جائیں ۔میں تو پہلے دن سے یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ پبلک کروتاکہ یہ شفاف ہوں۔ دوسرا انہوں نے یہ ایشو اٹھایا کہ اب الیکشن ہورہے ہیں تو یہ نئی پاپولیشن نئے اعداد و شمار جو کے آگئے ہیں ان کو دیکھیں
اور سینسس آفیسر جو کہ نمائندگی کررہے تھے نے کہاکہ ہم اپریل 2018 میں فائنل نمبرز دیں گے اس پر یہ کہا گیا اگر یہ اپریل 2018میں فائنل نمبرز دیں گے تو پھر نئی اسمبلی نئے الیکشن کے نتائج آئیں گے مئی میں اس اسمبلی کی مدت ختم ہوجائے گی ۔تو پھر دو تجاویز دیں گئیں کہ اس کا کام تیز کیاجائے اور اگر دسمبر میں یہ مکمل ہوجاتی ہیں اس کے لیے اگر انہیں پیسے کی ضرورت ہے تو گو ہیڈ کیا جائے ۔یا پھر یہ جو ہے پرویزنل نتائج ہیں ہمیں ان پر حد بندی کردی جائے وہاں پر بھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔اس پر کہا گیا کہ ہم یہ بھیج دیتے ہیں کہ آئی پی سی سی میں جس میں اس پر غور کیاجائے گا۔
آئی پی سی کی کا اجلاس ہوا جس میں صوبائی وزیر ڈاکٹر سکندر میندھرو نے شرکت کی تھی۔ میں اس اجلاس میں شرکت نہیں کرسکا تھا ۔اس کے بھی منٹس ہیں ۔انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ ہم فیصلہ نہیں کرسکتے کیوں کہ یہ سی سی آئی کی سطح کا معاملہ ہے۔ٹی وی پرخبر آئی کہ فیصلے خود ہی ہوگئے۔ خود ہی کہہ کر کہ یہ سی سی آئی میں جانا چاہیے سی سی آئی میں اس کا فیصلہ کرنا چاہیے اب میں نے سنا ہے کوئی پریزنٹیشن آرہی ہے جب یہ بات کنفرم ہوجائے گی تو میں اس پر بات کروں گا لیکن ابھی تک یہ کنفرم نہیں ہے بلکہ یہ ٹی وی کی خبر تک محدود ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ شفاف کون نہیں کرنا چاہتا پاکستان کی جو گروتھ ہوئی ہے یعنی جو سالانہ گروتھ ہوئی ہے پورے ملک کی 132.35ملین کی آبادی تھی 1998 کی مردم شماری کے تحت اب جو پرویزنل نمبرز جو دیئے گئے ہیں اس کے مطابق 207.77ملین ہے اور جو اوسط سالانہ شرح میں اضافہ ہے وہ 2.4فیصد ہے اس میں سب سے زیادہ جو گروتھ ہوئی ہے وہ صوبہ بلوچستان میں ہوئی 3.37فیصد اس کے بعد خیبر پختونخواہ میں ہوئی 2.89فیصد پھر صوبہ سندھ میں ہوئی 2.41فیصد اور پنجاب میں 2.13فیصد یہ نمبرز دیئے گئے ہیں پرویزنل نتائج میںیہاں بیٹھ کے یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس صوبے یا اس شہر کی کیا آبادی ہے ۔
ہاں جو ایک اندازہ ہوتا ہے 2011 میں ایک سینسس ہوا تھا اس سینسس میں لوگوں کی بہت زیادہ باتیں ہوئیں تھیں گھروں کا شمار کیاگیا تھا یہ سب کو پتہ ہے۔میں یہ نمبر ز دیکھ کر نہیں کہہ سکتا کہ یہ صحیح ہے یا غلط ہے لیکن یہ سینسس آفس کا یہ فرض ہے کہ اس ملک کے لوگوں کومطمئن کرے میں یہ بھی نہیں کہنا چاہتا کہ ہم اس کو رد کردیں ہاں یہ ضرور ہے کہ ہمیں انہوں نے مطمئن کرنا ہے اگر کسی کو کوئی اعتراض ہے تو مناسب طریقے سے اس کی تحقیقات ہو سندھ کے اندر ٹوٹل 39ہزار 139بلاکس بنائے گئے تھے
بلوچستان میں 10ہزار 212 پنجاب میں 87006،آپ کو سینسس آفس سے بلاکس کا ڈیٹا مل جائے گا اور ہمیں ذاتی طور پر اس چیز کو دیکھنا ہے جیسا کہ میں اپنے گاں کے بلاکس کو دیکھوں گا کہ وہ صحیح ہے یا غلط ۔یہ ذاتی پریکٹس ہمیں کرنی ہوگی نہیں تو ہم دوبارہ 1998 میں واپس چلے جائیں گے۔ تو ہمارا اور نقصان ہے۔ ہمیں کچھ تھوڑا سا معمولی سافائدہ ہوگا مگر بلاکس کے حوالے سے جس کو اعتراض ہے وہ کرے۔ہم اسے ٹوٹلی رد کرکے واپس 98میں نہیں جانا ہے دوبارہ پوری ایکسائز نہیں کرائیں2011 میں جب یہ کام شروع ہوا
میں ایک اجلاس میں موجود تھا میں نے اس وقت بھی یہ کہاتھا کہ یہ پرانا طریقہ ہوگیاہے کہ ایک ایک گھر میں جاکر گھر والوں کو شمار کریں نادرا کا ایک ادارہ موجود ہے اس سے کہیں اور انہیں جنوری تا دسمبر ان کو پورا سال دے دیں کہ وہ جس قدر ممکن ہو ریکارڈ کو بنائیں۔لوگ اپنے شناختی بھی بنوائیں اور جو آپ کے مائنرز ہیں ان کی بھی تفصیلات دیں یعنی جس قدر ممکن ہو سکے نادرا ڈیٹا کو مکمل کرے تو آگے چل کے یہ ہوگا کہ صرف ایک بٹن دبا کر ہم کسی حد تک مکمل نتائج حاصل کرسکتے ہیں ۔ شفافیت کا اگر یہ معیار ہے کہ کہ فلاں لوگ اگر ساتھ ہیں تو شفاف ہوجائے گاتو یہ درست نہیں ہے ۔نادرا کی کوریج ابھی پوری نہیں ہے اس حوالے سے کام ہونا چاہیے ۔صوبے کا جو حق ہے وہ اس کو دلائیں دوسروں پر انحصار نہ کریں ۔