ایک صاحب کہتے ہیں کہ مجھے عبداللہ مروزیؒ کے ساتھ سفر کرنے کا موقع ملا، سفر شروع ہونے سے پہلے انہوں نے کہا کہ اچھا بتاؤ! ہم میں سے امیر کون ہے؟ میں نے عبداللہ مروزیؒ سے کہا: جی آپ سب کے امیر سفر ہیں، انہوں نے کہا: بہت اچھا! اب اگر میں امیر بن گیا تو تمہیں پورے سفر میں میری بات کو ماننا ہو گا، میں نے کہا، حاضر ہوں، چنانچہ انہوں نے اپنے اور میرے سامان کو باندھا اور اپنے سر پہ رکھ لیا، میں نے کہا جی مجھے اٹھانے دیں، کہنے لگے کہ آپ مجھے امیر مان چکے ہیں اب میں جو کر رہا ہوں مجھے کرنے دیں، میں بڑا
حیران، چنانچہ دونوں کا سامان انہوں نے خود اٹھایا، چلے، راستے میں جب کھانے کا وقت آتا تو وہ کھانا میرے سامنے رکھتے اور مجھے حکماً زیادہ کھلاتے حتیٰ کہ ایک جگہ بارش ہو گئی تو وہ اپنی چادر سے ایک گھنٹہ میرے اوپر سایہ کیے رہے تاکہ میں بارش سے بچا رہوں اور آرام کی نیند سویا رہوں، میں نے کہا جی مجھے آپ کی خدمت کرنی چاہیے، جب میں بات کرتا تو وہ کہتے، دیکھو! آپ مجھے امیر مان چکے ہیں، لہٰذا اب میں جو کہوں گا وہ آپ کو کرنا ہو گا، تو کہنے لگا کہ میں افسوس ہی کرتا رہا کہ کاش میں نے انہیں امیر نہ بنایا ہوتا۔