حضرت علی ؓسے کسی نے کہا ”یا امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی کے ادوار میں امن و امان اور استحکام تھا لیکن آپؓ کے دور میں بدامنی اور جنگیں ہیں‘ اس کی کیا وجہ ہے“ حضرت علی رضی نے فرمایا ”ان کا مشیر میں تھا اور میرے مشیر تم جیسے لوگ ہیں“ حکمران اچھا ہے‘ یا برا ہے‘ وہ کامیاب ہے یا ناکام ہے‘اس کا فیصلہ اس کے مشیر کرتے ہیں‘ مشیر اچھے ہوں گے حکمران اچھا ہو جائے گا‘
مشیر برے ہوں گے حکمران برا ہو جائے گا شاید یہ وہ حقیقت ہے جس کی نشاندہی آج میاں شہباز شریف نے کی ،میں میاں شہباز شریف سے اتفاق کرتا ہوں‘ واقعی میاں نواز شریف کوان کے مشیروں نے اس انجام تک پہنچایا لیکن اس معاملے میں صرف نواز شریف بدقسمت نہیں ہیں‘ ہماری ہر حکومت ہر اس شخص کو اپنا مشیر بنا لیتی ہے جس نے کونسلر تک کا الیکشن نہیں لڑا ہوتا یا پھر وہ الیکشن ہار کر اسلام آباد پہنچا ہو‘ وہ حقیقتاً نالائق ہو‘اس کے پاس اتنا وافر وقت موجود ہو کہ وہ سینکڑوں لطیفے سنا سکے‘ وہ جی بھر کر خوشامد کر سکے اور دل کھول کر غلط فہمیاں پیدا کر سکے اور ہماری حکومتوں کے مشیروں میں یہ ساری خوبیاں موجود ہوتی ہیں اور یہ ان خوبیوں کا نتیجہ ہے ہماری ستر سال کی تاریخ میں کوئی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا‘ میاں شہباز شریف نے درست نشاندہی کی لیکن ساتھ ہی انہیں بھی اپنے مشیروں پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ یہ خود بھی ایسے ہی خوشامدی مشیروں کے نرغے میں ہیں جنہوں نے ان سے ماڈل ٹاﺅن میں 14 لوگ مروا دیئے تھے‘انہوں نے بھی اگر اپنے مشیر تبدیل نہ کئے تو بھی اپنے بھائی جیسے انجام تک پہنچ جائیں گے۔پاکستان مسلم لیگ ن نے آج ایک بار پھر میاں نواز شریف کو اپنا صدر چن لیا ،میاں نواز شریف نے بھی دھواں دھار تقریر کی ، میاں نواز شریف نے ملک کی تمام پارٹیوں کو گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی دعوت بھی دی ،کیا یہ ڈائیلاگ ممکن ہے اور جب کوئی لیڈر حکومت میں ہوتا ہے تو اسے یہ ڈائیلاگ کیوں یاد نہیں آتا‘ وہ سارے اچھے کام صرف اپوزیشن میں کیوں سرانجام دیتا ہے؟