اسلام آباد(این این آئی)سینٹ کے بعد قومی اسمبلی نے اسمبلی نے بھی اپوزیشن کے شور شرابے اور احتجاج کے باوجود الیکشن اصلاحات بل 2017 منظور کرلیا ہے جو صدر مملکت کے دستخط کے بعد قانون بن جائیگا اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے دوبارہ پارٹی صدر بننے کی راہ ہموار ہوگئی جبکہ تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر نے کااعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابی اصلاحات کے بل میں ترمیم آئین کی روح کے منافی اور متصادم ہے ٗ
حکومت کلاز 203پر نظر ثانی کرے ۔ پیر کو انتخابات بل 2017 کی منظوری کیلئے قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیرصدارت ہوا جس میں وزیرقانون زاہد حامد نے الیکشن بل 2017 منظوری کے لئے پیش کیا۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور تحریک انصاف کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی نے بل کی مخالفت کی تاہم اپوزیشن کے شور شرابے اور احتجاج کے باوجود الیکشن ریفارمز بل 2017 منظور کرلیا گیا ٗ اس موقع پر حزب اختلاف کے ارکان نے بل کے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں اور اسپیکر کے ڈائس کا گھیراؤ کرلیا اور حکومت مخالف نعرے لگائے جواب میں حکومتی اراکین نے اپوزیشن کے خلاف شدید نعرے بازی کی ۔انتخابی اصلاحاتی بل کی شق 203 میں کہا گیا کہ ہر پاکستانی شہری کسی بھی سیاسی جماعت کی رکنیت حاصل کرسکتا ہے۔بل کے نکات میں کہاگیا کہ ہر وہ شہری جو سرکاری ملازمت کا عہدہ نہیں رکھتا ہو وہ ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھ سکتا ہے ٗ دوسری صورت میں ایک سیاسی جماعت سے منسلک ہو سکے گا، سیاسی سرگرمیاں میں حصہ لے سکتا ہے اور ایک سیاسی جماعت کا عہدیدار بھی منتخب ہوسکتا ہے۔نکات میں کہاگیا کہ جب ایک شہری سیاسی جماعت میں شمولیت کریگا تو اس کا نام بطوررکن سیاسی جماعت کے ریکارڈ میں درج کیا جائیگا اور رکنیت کا کارڈ یا دیگر دستاویزات بھی جاری کی جائیں گی
جس سے سیاسی جماعت کی رکنیت ظاہر ہوتی ہو۔نکات میں کہاگیا کہ کوئی بھی شہری ایک وقت میں ایک سے زیادہ سیاسی جماعتوں کا رکن نہیں بن سکتا۔نکات میں کہاکہا کہ سیاسی جماعت خواتن کو رکن بننے کی حوصلہ افزائی کرے گی۔نکات میں کہاگیاکہ سیاسی جماعت کا رکن پارٹی کے ریکارڈ تک رسائی کا حق رکھتا ہے ماسوائے دیگر اراکین کے ریکارڈ کے۔ا س سے قبل اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہاکہ شاہ محمود قریشی نے پوائنٹ آف آرڈر پر بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ
اگرموجودہ حالت میں بل منظور ہوا توعدالت جائیں گے۔انھوں نے کہا کہ آج جو قانون سازی کے لیے جو بل سینیٹ سے قومی اسمبلی میں آیا ہے اس پر اراکین نے بہت محنت کی اور اس میں ہماری پارٹی پی ٹی آئی کا خون پسینہ شامل ہے۔انھوں نے انتخابی اصلاحات کی جو کمیٹی بنی تھی اس کے پیچھے طویل جدوجہد تھی اور 126 دنوں کا دھرنا شامل تھا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ شق 203 جو آج اس بل میں شامل کیا جارہا ہے اور
پہلی شق جو شامل تھی آرٹیکل 5 کی شق ون کو ختم کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے یہ آئین کی روح سے متصادم ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آئین واضح طور پر کہہ رہا کہ ایک شخصیت جو آرٹیکل 62، 63 پر پورا نہیں اترتی اس پر سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ آچکا ہے کہ نواز شریف آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت اہلیت نہیں رکھتے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ نواز شریف کیلئے انفرادی طور پر ایک شق شامل کررہے ہیں جو آئین کی روح کے خلاف ہے اور ابھی وقت ہے کہ شق 203 کو نکالا جائے۔انھوں نے کہا کہ آپ کی اکثریت ہے اگرآپ یہ منظور کردیتے ہیں تو
اس شق کو عدالت میں چیلنج کیا جائیں گے اور عین ممکن ہے کہ یہ غیرآئینی قرار دی جائے۔اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا کہ ایک شخص کے لیے پارلیمنٹ اور جمہوریت کو داؤ پر لگایا جارہا ہے ٗ انہیں اپنا بھائی بھی پارٹی صدر کے طور پر قبول نہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر اسی طرح معاملہ چلتا رہا تو کل اجمل پہاڑی بھی پارٹی صدر بن جائیگا۔شیخ رشید احمد نے کہاکہ حکومت نے سپریم کورٹ پر راکٹ مارا ہے اور آج جمہوریت کے تابوت میں کیل ٹھونکی جارہی ہے ٗالیکشن اصلاحات بل پیش کرنے والے حکومتی وزیر زاہد حامد پرویزمشرف کا این آر اولکھتے تھے اور
آج یہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کھڑے ہیں ٗ یہ جومشرف کے ساتھ تھے اب نئی حکومت کے ساتھ ہونگے ٗیہ لوگ دن میں حکومت کے ساتھ ہوتے ہیں ،شام کواپوزیشن کو فون کرتے ہیں کہ ان کیساتھ ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ میاں محمد نواز شریف کو اپنا بھائی شہباز شریف بھی پارٹی سربراہ کے طور پر قبول نہیں ٗ مسلم لیگ (ن) آئینی ترمیم کے ذریعے اداروں سے تصادم کی راہ پر گامزن ہے اور بعض لوگوں کوسمجھ ہے کہ یہ لوگ کونسا کھیل کھیلنے جارہے ہیں۔شیخ رشید نے سپیکر قومی اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج کی تقریر میں کوئی ایسی بات نہیں کروں گا
جوآپ کے مزاج کے خلاف ہواور احسن اقبال کے خلاف بھی نہیں بولوں گا شاید اگلے وزیر اعظم وہی ہوں ۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈارکے خلاف 28 گواہ ہیں اور بہت جلد سپریم کورٹ میں آواز لگے گی کہ جیل سے وزیرخزانہ حاضرہوں۔ حکومت کی جانب سے آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے ترازو پر ڈائنامائٹ پھینکا گیا ہے اور میں انتخابی اصلاحات کے بل کے خلاف سپریم کورٹ جاؤں گا۔جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ نے قومی اسمبلی میں الیکشن بل میں ترامیم پیش کی۔انھوں نے کہا کہ
ہم سے شق 203 کے حوالے سے حقائق چھپائے گئے اور شق 203 سے متعلق حقائق چھپانا حکومت کی بددیانتی ہے۔صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ ہم کسی نااہل شخص کو پارٹی صدر بنانے کی مذمت کرتے ہیں۔انھوں نے خواتین کے 10 فیصد سے کم ووٹ کاسٹ ہونے پر الیکشن کالعدم قرار دینے کی بھی مخالفت کردی۔بل پر بحث کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن نوید قمر نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ شق جس طرح خاموشی سے لائی گئی ہے
میرے خیال میں کسی بھی جمہوری پارٹی کیلئے مناسب نہیں ہے۔آفتاب خان شیرپاؤ نے کہا کہ ہم نے جس بات کو ٹھیک سمجھا اس کی حمایت کی اوراس بل کیلئے کوشش کی نظام بہتر ہو اور جو مسودہ تیار ہوا اور جہاں ترامیم کی تھیں وہ آگئی ہیں لیکن میں گمان میں نہیں تھا بہت سی چیزیں ترک کردی جائیں گی۔ خیال رہے کہ انتخابی اصلاحاتی بل سینیٹ سے گزشتہ ماہ منظور ہوا تھا جہاں اپوزیشن نے بل کی شق 203 پر ترمیم پیش کی تھی۔انتخابی اصلاحاتی بل 2017 قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد سینیٹ میں پیش کیا گیا تو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر اعتزاز احسن نے ترمیم پیش کی کہ
جو شخص اسمبلی کا رکن بننے کا اہل نہ ہو وہ پارٹی کا سربراہ بھی نہیں بن سکتا جس کے بعد بل پر ووٹنگ ہوئی۔حکومت نے محض ایک ووٹ کے فرق سے الیکشن بل کی شق 203 میں ترمیم مسترد کرانے میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کی پارٹی صدر بننے کی راہ ہموار کردی تھی۔بل کی منظوری میں اپوزیشن جماعتوں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور بلوچستان نیشنل پارٹی۔مینگل (بی این پی۔ایم) نے اہم کردار ادا کیا اور ووٹنگ کے عمل میں اپوزیشن کا ساتھ نہیں دیا تھا۔سینٹ اور قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد بل پر صدر مملکت ممنون حسین دستخط کر ینگے جس کے بعد بل قانون بن جائیگا ۔