اسلام آباد(نیوز ڈیسک) سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربّانی نے کہا ہے کہ سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ نیسیاستدانوں کو کبھی قبول نہیں کیا، اور ملک کو ایک فوجی چھاؤنی میں تبدیل کردیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’’اگر اس نظام کو دوبارہ پٹری سے اْتارا گیا تو وفاق ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ اٹھارویں ترمیم کو واپس لینے کے لیے کی گئی کسی بھی کوشش سے قوم پرستوں کو ریاست پر تنقید کا موقع مل جائے گا۔‘‘
رضا ربّانی ’’یومِ آئین‘‘ کے عنوان سے ایک سیمینار سے خطاب کررہے تھے، جس کا اہتمام پاکستان انسٹیٹیوٹ برائے پارلیمانی سروسز (پی آئی پی ایس) نے کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ دس اپریل 1973ء4 کو متفقہ طور پر آئین منظور کیا گیا تھا، لیکن آج بھی ہم اکثر سنتے ہیں کہ آئین کو خطرہ لاحق ہے۔ نئی نسل کو اس طرح کے کسی خطرے کی وجہ معلوم ہونی چاہیے۔چیئرمین سینیٹ نے کہا ’’سیاستدانوں کو 1947ء4 میں ہی بدنام کرنا شروع کردیا گیا تھا، جب انہوں نے ملک کو ایک فلاحی ریاست بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ قائدِاعظم محمد علی جناح کی وفات کے فوراً بعد ملک کو سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے ایک فوجی چھاؤنی میں تبدیل کردیا تھا، اس لیے کہ وہ طاقت کا استعمال کرنا چاہتے تھے۔‘‘ان کا کہنا تھا کہ ’’دوسری جانب سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں نے فرمانبرداری کرتے ہوئے ان کی مدد کی۔ تقسیم کرو اور حکومت کرو کی حکمت عملی بھی عوام کو قابو کرنے کے لیے اپنائی گئی تھی۔‘‘رضا ربّانی نے کہا کہ 1956ء4 کا آئین عوامی نمائندوں نے بنایا تھا، لیکن انہوں نے 1962 کے آئین کو قبول نہیں کیا، اس لیے کہ وہ ایک آمر کی جانب سے تیار کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا ’’تاہم 1973ء4 کا آئین سب سے بڑی اور شاید ملک کی آخری متفقہ دستاویز ہے۔ آمروں نے وقتی طور پر اس آئین کو معطل کیا، اس لیے کہ سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ جانتی تھی کہ اس طرح کا آئین دوبارہ نہیں بنایا جاسکتا۔‘‘ان کا کہنا تھا کہ یہ آئین بڑی تعداد میں قربانیوں کے بعد تیار ہوا تھا، اور اس وقت بھی جب اسے لوگوں نے تیار کیا، تو اس کی حفاظت کے لیے انہوں نے اپنی جانیں دیں۔ یہ آئین عوام کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں ایسے لوگ جنہوں نے آئین کے تحفظ کی کوشش کی، اور صوبائی خودمختاری کے بارے میں بات کی، انہیں ہندوستانی جاسوس قرار دینے کے ساتھ ان پر ملک توڑنے کا الزام عائد کیا گیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ایک کثیر النسل ملک ہے اور اسی تنوع کے ذریعے اتحاد کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔اْن کا کہنا تھا کہ بدعنوانی اور دیگر خامیوں کے خاتمے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ باقاعدگی کے ساتھ انتخابات کا انعقاد کرایا جائے اور عوام کو موقع دیا جائے کہ وہ بدعنوان سیاستدانوں کو مسترد کردیں۔رضا ربّانی نے تسلیم کیا کہ اس نظام میں خامیاں موجود ہیں، اور ان کے خاتمے کے لیے آئین میں تبدیلیاں کی جاسکتی ہے۔انہوں نے کہا ’’میں مانتا ہوں کے اٹھارویں ترمیم کے ساتھ مسائل ہیں، اس لیے کے صوبے اپنا کام نہیں کررہے ہیں، اور وزرائے عالیٰ سو رہے ہیں، لیکن اس کو واپس لینے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے موقع پر بلوچستان کے قوم پرستوں اعتماد میں لیا گیا تھا۔ بالفرض یہ ترمیم واپس لی جاتی ہے، تو ایسے لوگ جو اس وقت مسلح جدوجہد کررہے ہیں، دلیل دینا شروع کردیں گے کہ ان کی مسلح جدوجہد کو روکنا نہیں چاہیے۔‘‘سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ آئین کے دفاع پر صرف کیا ہے۔انہوں نے کہا ’’میں نے بلوچستان، سبّی جیل میں ایک سال گزارا، اور آئین کے تحفظ کے لیے دس کوڑوں کی سزا بھگتی۔ یہ بات غیرمنطقی اور ناممکن ہے کہ 1973ء کے آئین کی طرز پر ایک اور آئین بنایا جائے۔ لہٰذا ہمیں اس کی حفاظت کرنی چاہیے۔‘‘
رکن قومی اسمبلی چوہدری محمود بشیر ورک نے کہا کہ جب پاکستان وجود میں آیا تو کوئی سہولت موجود نہیں تھی۔ نئی نسل کو تعلیم اور دیگر سہولیات تک رسائی حاصل ہے۔سابق وزیراعلیٰ سندھ مظفر حسین شاہ نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان اپنے بانی سے بہت جلد محروم ہوگیا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے، جن کی وجہ سے 1973ء4 کا آئین متفقہ طور پر منظور ہوا تھا۔’’یومِ آئین‘‘ کے موقع پر ایک تقریری مقابلے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا، جس میں مختلف تعلیمی اداروں کے طالبعلموں نے حصہ لیا۔اس تقریری مقابلے کے جج محمد مقبول خان نے ڈان کو بتایا کہ ایف7/2 کالج کی طالبہ فرزانہ اے بٹ کو اوّل، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے فہد امین کو دوم اور اقرا یونیورسٹی کے محمد شہباز کو سوم قرار دیا گیا۔ چوتھا انعام فاطمہ جناح خواتین یونیورسٹی کی طالبہ نائمہ بنت شہاب کو دیا گیا۔
‘نظام پٹڑی سے اْتارا تو وفاق ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا’رضا ربّانی
11
اپریل 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں