کابل(این این آئی)ایک امریکی آڈیٹر نے افغان افواج کی جانب سے ملک کو خطرات سے نکالنے اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو پھر سے ابھرنے نہ دینے کے کام میں ناکامی کا ذمہ دار ناقص منصوبہ بندی اور تربیت کو قرار دیا ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق غیر جانبدار
ادارے کے ایک سربراہ نے متنبہ کیا کہ جب تک افغان فوج کی تربیت کا انداز نہیں بدلا جائے گا، تب تک فراہم کیے جانے والے اربوں ڈالر ضائع جاتے رہیں گے۔افغانستان کی تعمیرِ نو کے خصوصی انسپیکٹر جنرل، جان سوپکو کے اس جائزے سے پہلے 3000 اضافی فوجیں افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے، جو وہاں موجود امریکی فوجوں کی تعداد میں 25 فی صد سے زائد کا اضافہ ہے۔اْنھوں نے کہا کہ امریکی مشن افغانستان کے عوام کے دل اور دماغ جیتنے کے کوشش کرنا ہے، تاکہ وہ اپنے ملک کے لیے لڑائی جاری رکھیں۔ تاہم، اْنھوں نے اس جانب توجہ مبذول کرائی کہ سب سے پہلے افغان افواج کی طرف دھیان مرکوز کرنا ہوگا۔ادارے کے سربراہ کے بقول وہ نہیں لڑیں گے اگر اْنھیں یہ شک ہو کہ اْنھیں اس کا معاوضہ نہیں ملے گا۔ انسپیکٹر جنرل کے دفتر نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کا تعلق گذشتہ 16 برس کے دوران سیکھا گیا، جس کا مقصد آئندہ کی تربیتی کاوشوں میں بہتری لانا ہے۔سوپکو نے نظام میں موجود مسائل کی جانب بھی نشاندہی کی، جن کا تعلق حوصلے، تعلیم کی کمی، منشیات کے استعمال اور بدعنوانی سے ہے۔ایک سوال کے جواب میں، اْنھوں نے کہا کہ فوجیوں کی چند بیواہیں پینشن کے فوائد کے حصول کے لیے غلط کاری تک مجبور ہوئیں۔