صدر ابامہ اپنے دور صدارت میں 5 سٹار ہوٹل کی لابی میں بیٹھا تھوڑی دیر بعد ہونے والی میٹنگ سے خطاب کی تیاری کر رہا تھا، جب اچانک ایک پاکستانی ویٹر اسکے قریب آیا اور کہنے لگا، “سر میں پاکستانی ہوں میرا نام سمیر ہے، میں نے اور میرے ملک نے آپ کی بہت تابعداری کی ہے مجھے آپ سے چھوٹی سی مدد درکار ہے“ “بتاؤ، میں تمھارے لیے کیا کرسکتا ہوں“ اوبامہ نے نرم لہجے میں پوچھا “سر بات یہ ہے کہتھوڑی دیر بعد ایک پاکستانی لڑکی مجھ سے ملنے والی ہے، جب وہ میرے پاس آئے تو ذرا اس پر رعب ڈالنے کے لیے آپ مجھے “ہیلو سمیر“ کہہ دیجئے گا“ “اوکے، نو پرابلم“ اوبامہ راضی ہوگیا، تھوڑی دیر بعد لڑکی آئی سمیر کے پاس بیٹھی اور اوبامہ نے زور سے ہاتھ ہلا کر سمیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا “ہیلو سمیر“، سمیر نے مڑکے ابامہ کو دیکھا اور کہا: “دفع ہوجاؤ! دیکھتے نہیں میں مصروف ہوں“۔۔!
”مُنے کے ابا
ایک صاحب کے حالات بہت خراب تھے۔۔کوئی بچت نہ تھی۔۔ کافی مشکلات میں گزارہ ہو رہا تھا۔۔ ایسے میں دماغ میں آیا کیوں نہ کوئی جِن قابو کیا جائے اور اسکو استعمال کرکے دولت کمائی جائے۔۔ ایک بابا جی کا پتہ ملا جو عملیات کیلئے مددگار ثابت ہو سکتے تھے۔۔ انہوں نے چالیس دن کا ایک مجرب عمل بتایا۔۔ عمل کےلیے رات کو اپنے گھر کے ایک کمرے کا انتخاب کیا۔۔ تین دن عمل چلتا رہا۔۔ مجھے ڈراؤنی شکلیں نظرآتی تھیں۔۔ چوتھی رات کا عمل جاری تھا۔۔ میں حصار میں تھا کہ اچانک ایک خوفناک نسوانی آواز آئی:
”مُنے کے ابا،منے کا فیڈر فریج سے نکال لائیں”۔۔ میں چوکنا ہو گیا کہ کوئی ہوائی مخلوق مجھے تنگ کرنا اور میرا عمل متاثر کرنا چاہتی ہے۔۔ بابا جی نے تاکید کی تھی کہ جیسے بھی حالات ہوں، حصار نہیں توڑنا ورنہ جان کا خطرہ ہو سکتا ہے۔۔! آواز دوبارہ آئی۔۔ میں نظرانداز کرگیا۔۔ دس منٹ بعد میں نے دیکھا کہ ایک چڑیل میری بیوی کی شکل دھارے میری طرف چلی آ رہی ہے۔۔ میں بلاخوف وِرد کرتا رہا کیونکہ میں تو حصار میں محفوظ تھا۔۔ وہ چڑیل میرے پاس آ پہنچی۔۔ میں نے وِرد تیز کر دیا۔۔ اُس کے ہاتھ میں بیلن تھا۔۔
میں پوری ہمت سے بولا:”جا بھاگ جا چڑیل کہیں کی۔۔ تُو میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی” بس اتنا کہنا تھا کہ وہ حصار کے اندر گھس آئی اور دھپا دھپ دھنا دھن بیلن سے مجھے پیٹنے لگی۔۔ میں اسے جنات کی چال سمجھتا رہا کہ وہ مجھے آزما رہے ہیں۔۔ جب میں چڑیل سے مار کھا رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ حصار کے سارے جنات پیٹ پکڑے زور زور سے ہنس رہے تھے۔۔! جب چڑیل مجھے مار مار کےتھک گئی اور مجھے گھسیٹ کے حصار سے باہر نکالا تو ایک بدتمیز جِن میرے کان میں آکے کہنے لگا: ”سرکار پہلے اپنی بیگم نوں قابو
کرو فیر ساڈا سوچنا”
“گل خان” اور “چوہدری” صاحب
شادی کے بعد “گل خان” اور “چوہدری” صاحب کی ملاقات ہوئی۔دونوں بغل گیر ہوئے اور ایک دوسرے کی شادی شدہ زندگی کا حال پوچھنے لگے۔
” سناو! کیسا گزر رہا ہے لائف؟” گل خان نے پوچھا
چودھری صاحب کا جواب” الحمد للہ سب فٹ ہے۔ آپس میں بہت انڈر سٹینڈنگ ہے۔ صبح ہم دونوں مل کر ناشتہ بناتے ہیں ،،پھر باتوں باتوں میں برتن دھو لیتے ہیں پھر پیار پیار سے مل بانٹ کر کپڑے دھو لیتے ہیں۔ کبھی وہ ڪسی خاص ڈِش کی فرمائش کر دیتی ھے اور کبھی میں اپنی مرضی سے کچھ پکا لیتا ہوں ،،ماشا اللہ میری بیوی بہت صفائی پسند ہے بس اسی وجہ سے گھر کی صفائی ستھرائی میری زمہ داری ہے،،
چوہدری نے پوچھا…تم سناو خان لالہ،، تمہاری کیسی گزر رہی ہے ؟۔”
گل خان :” او یارا ،،،،، ذلالت تو ہمارا بھی اتنا ہی ہو رہا ہے جتنا تمہارا ۔لیکن ام کو یوں میٹھے لفظوں میں بیان کرنا نہیں آتا۔”