ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

برما کے بعد مقبوضہ کشمیرمیں کیا گھنائونا کھیل کھیلا جا رہا ہے، المناک داستان سامنے آگئی

datetime 14  ستمبر‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)بھارت کی افغانستان ، پاکستان ، برما میں مسلمانوں کے خلاف دہشتگردی کسی سے اب ڈھکی چھپی نہیں رہی۔بھارتی افواج کا مکروہ چہرہ اور خود بھارت کے اندر اس کی انسانیت سوز سرگرمیوں کا بھانڈا آسام ، ناگا لینڈ، منی پور میں بھی پھوٹ چکا ہے جہاں خواتین نے بھارتی افواج کے خلاف عصمت دری کے واقعات میں ملوث ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہوئے

برہنہ مظاہرے کئے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں موجود بینرز دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ تھے۔ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال بھی کچھ کم نہیں اور بھارتی قابض افواج مقبوضہ کشمیر کے عوام کو اپنا غلام سمجھتے ہوئے اندوہناک مظالم کا سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہاں قابض فوج مسلمان اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کیلئے طرح طرح کے حربے تو استعمال کر ہی رہی ہے اور اس سلسلے میں نوجوانوں کا قتل عام ، ٹارچر سیلوں میں اذیتیں کوئی نئی بات نہیں مگر مقبوضہ کشمیر کی خواتین بھی قابض بزدل بھارتی فوجیوں کے مظالم سے نہیں بچ سکیں۔ اسی طرح کا ایک واقعہ 23فروری 1991کا ہے جب مقبوضہ کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے چھوٹے سے گائوں کنن میں دن بھر کی مصروفیات اور گہما گہمی کے بعد زرینہ اور زونی (فرضی نام) رات کو سونے کی تیاری کر رہی تھیں، کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی رات جب زرینہ اور زونی نے دروازے پر فوج کو دیکھا تو سمجھ گئیں کہ یہ کریک ڈاؤن ہے۔حسب معمول مردوں کو الگ کر دیا گیا اور فوج گھروں میں گھس آئی لیکن اس کے بعد جو ہوا اسے یاد کرتے آج بھی زونی کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ہم سونے کی تیاری کر رہے تھے کہ فوج آگئی۔ انھوں نہ مردوں کو باہر نکال دیا۔ کچھ نے ہمارے سامنے شراب پی۔

میری دو سال کی بچی میری گود میں تھی۔ ہاتھا پائی میں وہ کھڑکی سے باہر گر گئی۔ وہ زندگی بھر کے لیے معذور ہو گئی۔ تین فوجیوں نے مجھے پکڑ لیا۔ میرا پھیرن، میری قمیض پھاڑ دی۔ اس کے بعد مجھے نہیں معلوم کہ کیا کیا ہوا۔ وہ پانچ لوگ تھے۔ ان کی شکلیں مجھے اب بھی یاد ہیں۔زرینہ بھی اسی گھر میں موجود تھیں۔ اُن کی شادی کو صرف 11 دن ہوئے تھے۔

میں اسی دن میکے سے واپس آئی تھی۔ فوجیوں نے میری ساس سے پوچھا کہ یہ نئے کپڑے کس کے ہیں۔ میری ساس نے کہا یہ ہماری نئی دلھن ہے۔ اس کے بعد جو ہوا میں بیان نہیں کر سکتی۔ ہمارے ساتھ صرف زیادتی نہیں ہوئی، ایسا ظلم ہوا ہے جس کی کوئی حد نہیں۔ زرینہ اور زونی کی یہ المناک کہانی تو صرف ایک داستان ہے ظلم کے پہاڑ آج بھی مقبوضہ کشمیر میں توڑے جا رہے ہیں

اور وہاں کے کشمیری عوام آج بھی اقوام متحدہ سے اس وعدے کو نبھانے کی راہ تک رہے ہیں جو ان سے آج سے 70سال قبل کیا گیا تھا جس میں ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ انہیں حق خودارادیت دیا جائے گا،مقبوضہ کشمیر کی خواتین آج بھی اپنی لٹی عصمتوں کے ساتھ کسی محمد بن قاسم کی راہ تک رہی ہیں۔آج اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے میانمار حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے

اسے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث قرار دیتے ہوئے رخائن میں مسلمانوں کے قتل عام کو نسل کشی قرار دیا ہے مگر کیا اقوام متحدہ مقبوضہ کشمیر کی جانب بھی اپنی نظر کرم ڈالے گا جہاں کئی ہزار خواتین کی بھارتی قابض افواج عصمتیں لوٹ چکی ہے، جہاں کئی ہزار نوجوان اقوام متحدہ کے وعدے اور چارٹر کی پاسداری میں جانیں قربان کر چکے ہیں، جہاں کے

ٹارچر سیل آج بھی دن رات بھیانک چیخوں سے گونج رہے ہیں، جہاں کے ندی نالوں اور دریاآج بھی بے گناہ کشمیریوں کے لاشے اگل رہے ہیں۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…