ینگون(این این آئی)بین الاقوامی صحافیوں کو ان علاقوں میں لے جایا گیا جہاں روہنگیا باشندوں کے دیہات جل کر راکھ ہو چکے ہیں۔ وہاں وہی ہندو موجود تھے، جنہیں روہنگیا قرار دیتے ہوئے خود اپنے گھروں کو آگ لگانے کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھاجبکہ ابھی تک میانمار حکومت کا یہ موقف رہا ہے کہ روہنگیا مسلمان اپنے گھروں کو خود آگ لگا رہے ہیں۔ میڈیارپورٹس کے مطابق ایک بدھ راہب زاتیکا کا غیر ملکی صحافیوں سے
گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھاکہ میں نے تو انہیں (روہنگیا مسلمانوں کو) روکا بھی تھا کہ ایسا نہ کرو لیکن وہ آگ لگانا ہی چاہتے تھے۔اس دعوے کے کچھ ہی دیر بعد اس بدھ راہب کے ایک قریبی ساتھی موانگ موانگ نے ایسی تصاویر بھی شائع کی تھیں، جن میں یہ دکھایا گیا تھا کہ روہنگیا مسلمان اپنے گھروں کو خود آگ لگا رہے ہیں۔ یہ وہ تصاویر ہیں، جنہیں میانمار کے حکومتی حلقے اور مقامی اخبارات شواہد کے طور پر پیش کر چکے ہیں۔حکومت اپنی زیر نگرانی جن غیر ملکی صحافیوں کو متاثرہ راکھین ریاست کا دورہ کروا رہی تھی، انہوں نے دیکھا کہ تصاویر میں دکھائی دینے والے دو افراد اسی شیلٹر میں موجود ہیں، جہاں ان صحافیوں کو لے جایا گیا تھا۔ایک اسکول میں قائم کیا گیا یہ شیلٹر حکومت نے مقامی ہندو برادری کے افراد کے لیے قائم کیا تھا۔ ان ہندوؤں کا غیر ملکی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان کے گھر مسلمانوں نے جلا دیے ہیں۔دو ہندوؤں کے پہچان لیے جانے سے پہلے ہی ایسی تصاویر مشکوک نظر آ رہی تھیں۔ جعلی تصاویر میں جس خاتون کو روہنگیا مسلمان خاتون قرار دیا گیا تھا، اس کا سر کسی میزپوش سے ڈھانپا گیا تھا۔ اسی تصویر کو ایک مقامی الیون میڈیا گروپ نے شائع کیا تھا کہ دیکھیں روہنگیا خود اپنے گھروں کو جلا رہے ہیں۔ بعد ازاں حکومتی ترجمان ساہتے نے بھی یہی کہتے ہوئے انہی تصاویر کا لنک ٹویٹ بھی کر دیا تھا۔یہ حقیقت منظر عام
پر آنے کے بعد کہ یہ تصاویر جعلی ہیں، حکومت نے اس کی تفتیش کرانے کا اعلان کیا ہے۔ حکومتی ترجمان ساہتے کا اب کہنا تھا کہ آگ لگانے والوں کو گرفتار کیا جائے گا۔