اسلام آباد(آئی این پی )معروف ماہر قانون سعد رسول نے کہا ہے کہ قانون کے مطابق جن جج صاحبان نے کسی کیس کا فیصلہ دیا ہوتا ہے انہی کے سامنے نظر ثانی اپیل جا سکتی ہے ، اس کے اندر ردوبدل صرف تب ہوسکتا ہے اگر فیصلہ دینے والے وہ جج صاحبان میں سے کوئی سبکدوش ہوجانے کی بناء پر موجود نہ ہو ورنہ جو حتمی فیصلہ دینے والا جج تھا اسی کے سامنے اپیل سنی جا سکتی ہے، پانامہ کیس میں 5رکنی بنچ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیلوں کی سماعت کے لئے 3رکنی بنچ کی تشکیل پر حیرانی ہے ۔
جمعہ کو نجی ٹی وی سے گفتگو کے دوران پانامہ کیس میں نظرثانی کی اپیلوں کی سماعت کے لئے تشکیل دیئے گئے سپریم کورٹ کے 3رکنی بنچ کے حوالے سے سعد رسول نے کہا کہ میراخیال تھا کہ پانامہ کیس کی نظرثانی اپیل پانچ رکنی بینچ کے سامنے ہی جائے گی کیونکہ قانون یہ کہتا ہے کہ جب جج صاحبان جنہوں نے فیصلہ دیا ہوتا ہے انہی کے سامنے نظرثانی اپیل جاسکتی ہے ۔ اس کے اندر ردوبدل صرف تب ہوسکتا ہے اگر وہ جج صاحبان جنہوں نے فیصلہ دیا ہو ان میں سے کوئی موجود نہ ہوجیسے کہ کوئی ریٹائرڈ ہوچکا ہو اسی طرح کی بات ہو تو اس کے اندر ردوبدل ہوسکتا ہے ورنہ جو حتمی فیصلہ دینے والا جج تھا اسی کے سامنے نظر ثانی اپیل سنی جاتی ہے ۔ میں بھی اس بارے میں تھوڑا سا حیران ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ انجیو گرافی کی وجہ سے اس بینچ کا حصہ نہیں ۔ سعدرسول نے کہا کہ اس کیس کے دو تین مراحل تھے پہلا مرحلہ20اپریل کو آیا جب پانچ رکنی بینچ نے تین دوکا فیصلہ دیا جس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار نے نوازشریف کو نااہل کیا باقی تین ججوں نے جے آئی ٹی بنا دی جو 28جولائی کا فیصلہ آیا اس کے دو حصے ہیں پہلا حصہ تین رکنی بینچ نے سائن کیا جنہوں نے جے آئی ٹی بنائی تھی ، دوسر ے حصے پر پانچ ممبران نے دستخط کئے اور پانچ کے پانچ ججز نے 5-0سے نوازشریف کو نااہل قرار دیا ۔