پشاور (آئی این پی )خیبرپختونخوا کے سینئرصوبائی وزیر صحت شہرام تراکئی نے کہا ہے کہ صوبہ بھر میں ڈینگی سے اب تک 18 اموات ہوئی ہیں، 3 ہزار 500 متاثرہ افراد کو صحت یابی کے بعد ہسپتالوں سے فارغ جبکہ 450 تاحال مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں، صوبائی حکومت نے ملک کی تاریخ میں سب سے پہلے پبلک ہیلتھ سرویلنس ایکٹ 2017 پاس کیا ہے جس کے تحت اب کسی بھی مرض کے پھیلتے ہی صوبے میں ایمرجنسی نافذ کرسکیں گے،
ڈینگی کا مکمل خاتمہ ناممکن ہے تاہم اس کو جلد کنٹرول کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔محکمہ صحت کے کانفرنس روم میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے شہرام تراکئی کا کہنا تھا کہ پبلک ہیلتھ سرویلنس ایکٹ پاس ہوچکا ہے جتنی بھی خطرناک بیماریاں ہوں گی ان کے لئے اس ایکٹ کے تحت ایمرجنسی نافذ کی جائے گی ایکٹ کے حوالے سے پہلی میٹنگ آج منعقد ہوئی جس میں مختلف امراض پر غور و خوض کیا گیا جبکہ تعلیمی اداروں میں ہیلتھ کے موضوعات پر سبق پڑھایا جائے گا، بچوں میں بیماریوں کے حوالے سے شعور آگاہی ضروری ہے۔ڈینگی کے حوالے سے وزیر صحت کا کہناتھا کہ اب تک 3500 متاثرہ مریض صحت یاب ہوکر گھر جا چکے ہیں جبکہ 450 کے قریب مریضوں کا علاج مختلف ہسپتالوں میں کیا جارہا ہے صوبے بھر میں اب تک ڈینگی وائرس سے 18 اموات ہوئی ہے۔وزیر صحت شہرام تراکئی کا کہنا تھا کہ صرف ڈینگی نہیں ہیلتھ میں اور بھی مسائل ہیں جنہیں حل کرنا ہے پشاور کے علاوہ مردان، بونیر اور دیگر علاقوں میں ڈینگی وائرس پھیلتا جارہا ہے جس کی بڑی وجہ گھروں میں موجود پانی کی ٹینکیوں پر ڈھکن کی عدم موجودگی ہے۔ محکمہ صحت کی ٹیمیں اپنا کام بخوبی کر رہی ہے جبکہ پشاور میں 20 دنوں میں 75 ہزار گھروں کو کلیئر کردیا گیا ہے اس کے علاوہ جہاں سے کیس سامنے آئے گا وہاں صفائی ہوگی تاہم احتیاطی تدابیر کی بھی اشد ضرورت ہے جس کے لئے ہمیں عوام کے مکمل تعاؤن کی ضرورت ہے جو ہمیں نہیں مل رہا۔ا
نہوں نے کہا کہ پنجاب کی ہیلتھ ٹیم کو دوبارہ خوش آمدید کریں گے لیکن انسانی جانوں کے معاملے میں سیاست نہیں ہونی چاہیے، ٹیم چاہے پنجاب کی ہو یا وفاق کی ڈبلیو ایچ او کے قانون کے تحت کام کریں گے، تہکال کے رہائشیوں کی جانب سے فضائی سپرے کے مطالبے کے سوال پر شہرام تراکئی کا کہنا تھا کہ ڈینگی سے متاثرہ علاقوں میں فضائی سپرے نہیں کرسکتے کیونکہ فضائی اسپرے پر سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے پابندی عائد کی گئی ہے اور ہم کوئی کام قانون کے خلاف نہیں کریں گے۔
پشاور میں ڈینگی مچھر کے خاتمے کیلئے سوئمنگ پولز کو بند کرنے اور وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ایک کروڑ 85 لاکھ روپے کی لاگت سے سوئمنگ پول کی تعمیر کرنے کے سوال پر شہرام تراکئی کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے سوئمنگ پولز کی تعمیر نہیں بلکہ ان میں پانی جمع کرنے پر پابندی عائد کی ہے کیونکہ ڈینگی مچھر کی افزائش صاف اور کھڑے پانی میں ہوتی ہے جس کے تحت تمام سوئمنگ پولز کو خالی کردیا گیا ہے
جبکہ ماہ رواں اور اکتوبر کا مہینہ ڈینگی کی افزائش کے حوالے سے انتہائی اہم ہے جس کے دوران ہم نے اس کے خاتمے کیلئے ہر ممکن اقدامات اٹھانے ہوں گے۔عائشہ گلالئی کی جانب سے پشاور کے ہسپتالوں میں ڈینگی سے متاثرہ افراد کو طبی سہولیات کی عدم دستیابی کے دعوے پر شہرام تراکئی کا کہنا تھا کہ عائشہ گلالئی جھوٹ بولنا چھوڑے، انسانی جانوں پر سیاست کرنے سے بعض رہے کیونکہ اس کے علاوہ اور بہت کچھ ہے جس پر سیاست کی جاسکتی ہے۔
دریں اثنا عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ حکومت نے ڈینگی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے،حکمرانوں کی غیر سنجیدگی کے باعث مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو یہاں تہکال میں ڈینگی سے جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین اور پسماندگان سے دلی تعزیت کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کیا ، اس موقع پر صوبائی جنرل سیکرٹری سردار حسین بابک ، صوبائی ترجمان ہارون بشیر بلور اور دیگر رہنما ؤں پر مشتمل وفد بھی ان کے ہمراہ تھا،
اس موقع پر جاں بحق افراد کے ورثاء نے اے این پی کے وفد کا شکریہ ادا کیا اور انہیں تمام صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ہسپتالوں میں ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا دو سے تین ہفتوں تک زیر علاج رہنے کے باوجود ہمارے مریض جاں بحق ہو گئے جو حکومتی بے حسی کا واضح ثبوت ہے ، میاں افتخار حسین نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ انسانی جانوں کا کوئی دوسرا نعم البدل نہیں ہو سکتا ،
پنجاب میں ڈینگی کے بعد وہاں کی صوبائی حکومت کو ناکام اور حکمرانوں کو ڈینگی برادران کہنے والے آج اپنے صوبے میں ڈینگی کے بعد سے کہیں نظر نہیں آ رہے ،بلکہ پنجاب سے آنے والی مدد کو بھی منفی تاثر کی نذر کر دیا گیا اس کے برعکس پنجاب میں نہ صرف ڈینگی پر قابو پایا گیا بلکہ ڈاکٹروں کو بیرون ملک اس حوالے سے ٹریننگ بھی دی گئی تا کہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جا سکے، انہوں نے کہا کہ حکومت وبا سے متاثر ہونے والوں کی اصل تعداد چھپا رہی ہے
اور جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 17ہو گئی ہے جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ حکومت کے پاس موجود ادویات غیر معیاری ہیں، ہسپتالوں میں ڈینگی وارڈ تک موجود نہیں اور آئی ، سرجیکل اور دیگر وارڈز میں موجود بیڈز پر دو دو اور تین تین مریض لٹائے گئے ہیں،انہوں نے کہا کہ حکومت وضاحت کرے کہ وہ ڈینگی پر قابو پانے میں ناکامی کی سزا عوام کو کیوں دے رہی ہے ، میاں افتخار حسین نے کہا کہ صوبے میں نہ تو ڈینگی سے بچاؤ کا سپرے ہے اور نہ ہی ادویات جبکہ صحت کا انصاف کے نام پر اپنوں کو نوازا جبکہ عوام کو قتل کیا جا رہا ہے ،
انہوں نے کہا کہ پنجام سمیت کوئی بھی اس موقع پر اپنی خدمات پیش کرے تو اسے خوش آمدید کہنا چاہئے اور سماجی تنظیمیں بھی اس کربناک صورتحال میں سامنے آ کر اپنا کردار ادا کریں ،انہوں نے کہا کہ وبا کی روک تھام کیلئے بین الاقوامی ٹیمیں درکار ہیں تاہم حکمرانوں کی بے حسی اور غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ نہ تو خود کام کرنے کے قابل ہیں اور نہ ہی دوسروں کو کام کرنے دیتے ہیں،
انہوں نے کہا کہ عمران خان کا پختونخوا کے بارے میں حالیہ انٹرویو عوام کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے، سردار حسین بابک نے اس موقع پر کہا کہ صوبے میں صورتحال واقعی سنگین ہے اور اس وائرس کو مزید پھیلنے سے روکنے کیلئے انسانی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا ، انہوں نے کہا کہ خیر سگالی کے جذبے کے تحت لوگوں کی جانیں بچانے کیلئے غیر ممالک سے بھی امداد قبول کر لی جاتی ہے
لہٰذا صوبائی حکومت پوائنٹ سکورنگ ،اور سیاست سے بالاتر ہو کر انسانیت کی خدمت کی بنیاد پر کام کرے ،انہوں نے کہا کہ اس اہم ایشو پر حکومت مسلسل غلط بیانی سے کام لے رہی ہے ،، انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کو اس صورتحال سے سبق سیکھنا چاہئے اور فوری طور پر احتیاطی تدابیر، مرض کی روک تھام اور فوری علاج معالجے کے طریقہ کار کے حوالے سے آگاہی مہم کا آغاز کیا جائے تاکہ لوگوں میں اس موذی مرض سے بچاؤ کیلئے شعور اجاگر کیا جا سکے ،
میاں افتخار حسین نے کہا کہ افسوسناک امر یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے محکمہ صحت کا حلیہ بگاڑ دیا ہے صحت کی سہولیات عوام کی دسترس سے باہر ہو چکی ہیں اور صورتحال انتہائی نازک ہو چکی ہے انہوں نے کہا کہ اب ان حالات میں حکومت انگلی سے سورج چھپانے کی بجائے حقیقت کا سامنا کرے اور عوام کو علاج معالجے کی سہولیات کی فراہمی اور ڈینگی کی روک تھام کیلئے فوری طور پر میدان عمل میں آئے ، انہوں نے کہا کہ منصوبوں کے افتتاح پر زور دینے اور سوئمنگ پول کو ترجیح بنانے والوں کو انسانی جانوں کی قدرو قیمت کا اندازہ نہیں ہے۔