اسلام آباد: سپریم کورٹ نے وزیر اعظم نااہلی کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نظریہ ضررت دفن ہو چکا ہے۔ اب زندہ نہیں ہونے دینگے ۔ فوجی اور سیاسی حکومتوں نے 1973ء کے متعلقہ آئین کا حلیہ بگاڑ ا۔ اس آئین پر تمام اطبقات کا اجتماع ہے۔ قوم کے ساتھ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جھوٹ بولے جارہے ہیں۔ قوم کے فیصلے بند دروازوں کے پیچھے نہیں ہونے دیں گے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے وزیراعظم کی نااہلی کے دائر درخواستوں کی سماعت کی۔ اس موقع پر جسٹس دوست محمد نے درخواست گزار ایڈووکیٹ گوہر نواز سندھوسے استفسار کیاکہ آپ کے مطابق ترجمان آئی ایس پی آر نے ٹوئیٹر کے ذریعے بیان کی تردید کی ۔ کیا ٹویٹ کو قابل قبول شہادت کے طور پر جانا جا سکتا ہے۔ کیا ترجمان پاک فوج نے میڈیا پر آکر ایسی کوئی بات کی۔ جسٹس جواد خواجہ نے استفسار کیا کہ ’’آر بٹریٹر‘‘ کا لفظ کیوں استعمال کیا۔ انگریزوں کے لفظ استعمال کرنے سے ابہام پیدا ہوتا ہے۔ جسٹس دوست محمد نے پوچھا کہ آپ کے بقول وزیر اعظم صادق اور امین نہیں رہے ‘ ایسے میں کیا ان کا بیان حلفی سچا ہو گا۔ وزیر اعظم نواز شریف پر الزام کا دارو مدار گواہ اور ثبوت پر ہے۔ عدالت میں قانون کے مطابق الزام ثابت کرنا ہوتا ہے۔ اس موقع پر اسحق خاکوانی کے وکیل عرفان قادر نے عدالت میں سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ پیش کی۔ عرفان قادر نے کہا کہ سپیکرکے مطابق آئین کے آرٹیکل 62کا معاملہ ان کے اختیار میں نہیں۔ صادق اور امین کی بات آرٹیکل 62میں کی گئی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آرٹیکل 63(۱)کے تحت سپیکر کے پاس اختیار سماعت تب ہو جب عدالت میں جرم ثابت ہو۔ اس پر جسٹس دوست محمد نے کہا کہ کے پی کے میں 6ماہ کے دوران بلدیاتی انتخابات کا کہا جاتا رہا۔ پینے کا صاف پانی اور مفت بجلی دینے کا وعدہ بھی کیا گیا ‘ایسے میں تو خیبر پختونخواہ کے رہنما بھی صادق اور امین نہیں رہے۔ آپ ایک پرندے کو جال میں پھنسا نے آئے ہیں۔ اس میں تو 100پھنس گے ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ بادی النظر کو جھوٹ بولنے کا حق نہیں۔ آپ اتنی مستور سے فوج کی تضحیک کا معاملہ لے آئے ۔ عدلیہ کی تضحیک پر کوئی بات نہیں کرتا۔