اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)چاچا کرکٹ کو شاید ہی کوئی ایسا کرکٹ شائق ہو جو کہ نہ جانتا ہو۔ چاچاکرکٹ سے متعلق یہاں ہم چند ایسی معلومات دے رہے ہیں جس سے بہت کم پاکستانی واقف ہیں۔ چاچا کرکٹ کا پورا نام چوہدری عبدالجلیل ہے ۔ لوگ آپ کو صوفی، جلیل اور چاچا کرکٹ کے نام سے جانتے ہیں۔ ان کی تاریخ پیدائش 8اکتوبر 1949ہے ، آپ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔
آپ کے والد آپ کی پیدائش کے دوسال بعد وفات پا گئے تھے، آپ کی تربیت آپ کی والدہ نے کی۔ چوہدری عبدالجلیل عرف چاچا کرکـٹ نے میٹرک تک تعلیم اسلامیہ ہائی سکول سیالکوٹ سے حاصل کی۔ چاچا کرکٹ اپنے بچپن سے متعلق ایک واقعہ بہت شوق سے سناتے ہیں، ہم وہ واقعہ قارئین کیلئے یہاں تحریر کر رہے ہیں جو یقیناََ آپ کو بہت پسند آئے گا۔ چوہدری عبدالجلیل عرف چاچا کرکٹ بتاتے ہیں کہ سکول کے دور میں بڑا شرارتی ہوا کرتا تھا ایک بار ماسٹر جی نے شرارتیں کرنے پر اتنا مارا کہ میں بیہوش ہو کر زمین پر گر گیا۔ آئندہ جب بھی ماسٹر صاحب مجھے شرارت کی سزا دینے لگتے تو میں اداکاری کرتے ہوئے زمین پر گر جاتا، ماسٹر صاحب ہنس پڑتے اور میں مار سے بچ جاتا تھا۔ ماسٹر جی نے میرا نام ہی جیلا بیہوش رکھ دیا۔ میں پورے سکول میں اس نام سے مشہور ہو گیا۔ چاچا کرکٹ کی زندگی سے متعلق چند مزید ایسے حقائق بھی ہیں جو شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ ہمارے علاقے میں کھیل کے بہت سے میدان تھے اور میرے خاندان کا بھی الگ سے ایک کھیل کا میدان تھا اور یہیں سے مجھے کھیل کا شوق پیدا ہوا ۔ میں نے اپنا کرکٹ کلب بھی چلایا اور مجھے پنجاب میں پہلی پختہ سیمنٹ کی وکٹ بنانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ 1969میں پہلا میچ 20سال کی عمر میں پاکستان اور انگلستان کی
کرکٹ ٹیموں کے درمیان لاہور میں دیکھا۔ شارجہ کپ 1984میں شروع ہوا ۔ میں نے ابو ظہبی سے جا کر شارجہ کپ کے 150سے زائد میچ دیکھے۔ سکول دور میں ایک دوست جس کا نام حفیظ حکیم تھا وہ سکول کے سالانہ کھیلوں کے مقابلوں میں آکر تماشائیوں کو ہنسایا کرتا تھا مجھے اس کا یہ طریقہ بہت پسند تھا اسلئے جب میں نے میدانوں کا رخ کیا تو اس کے انداز کو ہی سامنے رکھا۔
جتنا زیادہ ہوتا ہے اتنا ہی لطف بڑھتا ہے۔ اپنی اہلیہ کو اپنی کامیابی کا راز قرار دیتے ہوئے چوہدری عبدالجلیل عرف چاچا کرکٹ کہتے ہیں میری بیوی میری سب سے بڑی سپورٹر ہے۔ گھر کا خرچ اللہ تعالیٰ چلا رہا ہے، بیٹے کما رہےہیں اور کچھ میں بھی اشتہارات میں کام کر کے کما لیتا ہوں۔ چاچا کرکٹ بتاتے ہیں کہ 25سال ابو ظہبی میں کام کیا جو کمایا اس کا 75فیصد حصہ خرچ کر دیا
اور 25فیصد اپنے پاس رکھا۔ دوستوں کے کہنے پر ابوظہبی گیا جہاں انہوں نے پی آئی اے میں ملازمت اور پیپسی کولا سے سپانسر کی مد میں خطیر رقم ملنے کے خواب دکھائے مگر کچھ بھی نہ ہوا۔ پاکستان سے محبت اور عشق کا مشن جاری رکھنے کیلئے اپنی ساری جائیداد بیچ دی۔ اب کرائے کے مکان میں رہتا ہوں لیکن لوگ بڑے بڑے محلوں میں رہنے والوں سے زیادہ عزت دیتے ہیں،
پیدل چلتا ہوں لیکن قوم گاڑی والوں سے زیادہ مجھے سلام کرتی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ جہاں بھی گیا ہوں عزت ملی ہے لیکن میدان میں عمران خان، وسیم اکرم، انضمام اور میری اہلیہ نے بہت عزت اور حوصلہ افزائی کی۔ تصویر پاکستان، سفیر پاکستان، چاچا کرکٹ جیسے خطابات جسم میں نئی روح پھونک دیتے ہیں۔کرکٹ اور پاکستان دونوں ہی میری محبت اور عشق ہیں۔
رانجھے کو اتنی محبت ہیر سے نہیں تھی جتنی مجھے پاکستان سے ہے۔ چاچا کرکٹ ایک واقعہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ 1999میں پاکستان ٹیم دورہ پر انگلینڈ جا رہی تھی کچھ وجوہات کی بنا پر مجھے ٹیم کے ساتھ انگلستان جانے کیلئے حکومت نے ویزہ لے کر نہیں دیا۔ میں نے اسلام آباد میں موجود برطانوی ایمبیسی میں خود ہی ویزے کیلئے درخواست دیدی۔ برطانوی کمشنر نے اپنے عملے کو ایک نوٹ لکھا کہ چاچا کرکٹ کو ایک گھنٹے کے اندر اندر بغیر کاغذات کی جانچ پڑتال اور انٹرویو کے ویزہ لگا کر دو۔