اسلام آباد(آئی این پی ) وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے بڑے ہسپتال پمزمیں کے ایمرجنسی مختلف اوقات میں دو روز قبل دو لڑکیاں گندم میں رکھنے والی زہر یلی گولیاں کھائیں تھا جو نیم مردہ حالت میں ہسپتال لائی گئیں ،ایک گوجر ؤخان کے کسی نواحی علاقے سے تھی جس کا نام روزینہ تھا جب ایک دوسرے دن لائی گی تھی جس کا نام و پتہ نامعلوم ہے دونوں نوجوان تھیں اور دونوں کی پمز ہسپتال کی ایمر جنسی میں
دوران علاج جاں بحق ہو گئی تھیں لیکن انتظامہ نے دونو ں کی میتیں بغیر کسی وجہ کے پوسٹ مارٹم کرائے بغیر ان کے ساتھ آنے والوں کے حوالے کر دی تھیں ،جب کہ یہ ایک کرائم ہے ، کیونکہ پمز ہسپتال میں ریسکیو پولیس کا عملہ اور پمز انتظامیہ اس طرح کے واقعات جو خود کشی کے ہوں یاکسی نے کسی کو مارنے یعنی قتل کرے کے لیے کسی کو کچھ کھانے کو دیا ہو اس کا لازمی پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی لواحقین پوسٹ مارٹم نہ کرانا چاہیں تو علاقہ مجسٹریٹ یا اسسٹنٹ کمشنر کو تحریری درخواست دی جاتی ہے اور وہ اس پر پوسٹ مارٹم نہ کرانے کے دیے جانے والے جواز سیاگر مطمئن ہوں تو اجازت دیتے ہیں اس کے باوجود پولیس 325 کے تحت اپنی کاروئی کرتی ہے اور لاش کو پولیس کی موجودگی میں ورثا کے حوالہ کیا جاتا ہے لیکن دونوں واقعات میں دونوں لڑکیوں کے پوسٹ مارٹم نہیں کیے گئے دونوں نوجوان لڑکیوں کو قتل کیا گیا ہے یا انہوں نے خود کشی کی ہے پمز ہسپتال انتظامیہ نے جرم کا ساتھ دیا ہے جب کہ روڈ حادثہ میں شناخت کے باوجود پروفیسرز کی میتوں کو حوالے نہ کرنے کا سن کر مجھے تو حیرت ہوئی ۔