بدھ‬‮ ، 27 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

’’برادران ملت۔۔‘‘

datetime 3  جون‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کا قتل اور اس کے پس پردہ حقائق آج تک اسرار کے پردوں میں چھپے ہیں ، بی بی سی اردوکی ایک رپورٹ میں چند ایسے حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے جو شاید بہت کم پاکستانیوں کو پتہ ہوں۔آج کل وطن عزیز پاکستان کے خلاف سازشوں کی دبیز تہہ چڑھا دی گئی ہے اوران سازشوں کے تانے بانے بیشتر افغانستان اور بھارت سے جا ملتے ہیں،

مگر آپ یہ جان کر ششدر رہ جائیں گے کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ خان لیاقت علی خان کا قاتل ایک افغان باشندہ تھا۔ نوابزادہ لیاقت علی خان کا قتل کیسے ہوئے وہ مناظر تو شاید ریکارڈ نہ ہو سکے مگر ملنے والی معلومات دلچسپی سے خالی نہیں جو نذر قارئین کی جا رہی ہے۔سولہ اکتوبر1951 کا دن تھا۔ وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کو کمپنی باغ راولپنڈی میں پاکستان مسلم لیگ کے جلسۂ عام سے خطاب کرنا تھا۔ اوائل سرما کی اس شام نوابزادہ لیاقت علی خان پونے چار بجے جلسہ گاہ میں پہنچے۔ ان کےاستقبال کے لیے مسلم لیگ کا کوئی مرکزی یا صوبائی رہنما موجود نہیں تھا۔مسلم لیگ کے ضلعی رہنماؤں نے ان کا استقبال کیا۔ مسلم لیگ گارڈز کے مسلح دستے نے انہیں سلامی پیش کی۔ پنڈال میں چالیس پچاس ہزار کا مجمع موجود تھا۔ مسلم لیگ کے ضلعی رہنما شیخ مسعود صادق کے خطبہ استقبالیہ کے بعد وزیراعظم مائیک پر آئے۔وزیر اعظم نے ابھی ’برادران ملت‘ کے الفاظ ہی ادا کیے تھے کہ پستول کے دو فائر سنائی دیے۔ اگلی صف میں بیٹھے افغان باشندے سید اکبر نے پستول نکال کر وزیر اعظم پر یکے بعد دیگرے دو گولیاں چلائیں۔ پہلی گولی وزیر اعظم کے سینے اور دوسری پیٹ میں لگی۔وزیرِ اعظم گر پڑے۔ فضا میں مائیکرو فون کی گونج لحظہ بھر کو معلق رہی۔ پھر تحکمانہ لہجے میں پشتو جملہ سنائی دیا

’دا چا ڈزے او کڑے؟ اولہ۔‘ یہ آواز ایس پی نجف خان کی تھی جس نے پشتو میں حکم دیا تھا کہ ’گولی کس نے چلائی؟ مارو اسے!‘ نو سیکنڈ بعد نائن ایم ایم پستول کا ایک فائر سنائی دیا پھر یکے بعد دیگرے ویورلے ریوالور کے تین فائر سنائی دیے ۔ اگلےپندرہ سیکنڈ تک ریوالور اور رائفل کے ملے جلے فائر سنائی دیتے رہے۔ اس وقت تک قاتل کے ارد گرد موجود لوگوں نے اسے قابو کر لیا تھا۔

اسکا پستول چھین لیا گیا تھا مگر ایس پی نجف خان کے حکم پر انسپکٹر محمد شاہ نے قاتل پر سرکاری پستول سے یکے بعد دیگرے پانچ گولیاں چلا کر اسے ختم کر دیا۔ وزیر اعظم شدید زخمی حالت میں جلسہ گاہ سے باہر لائے گئے۔ وزیر برائے امور کشمیر نواب مشتاق گورمانی کی گاڑی جلسہ گاہ میں داخل ہو رہی تھی۔ وزیر اعظم کو اسی گاڑی میں ملٹری ہسپتال پہنچایا گیا۔ جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاکر انتقال کر گئے۔

لیاقت علی خان کا قتل پاکستان کی تاریخ کے پُراسرار ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ لیاقت علی خان کا قتل وہ نکتہ ہے جہاں پاکستان کی قیادت سیاسی رہنماؤں کے ہاتھ سے نکل کر سرکاری اہل کاروں اور ان کے کاسہ لیس سیاست دانوں کے ہاتھ میں پہنچی۔ قتل کے محرکات، سازشیوں کے نام اور واقعات کا تانا بانا شکوک و شبہات کی گہری دھند میں لپٹے ہوئے ہیں۔(تحقیق و تحریر: وجاہت مسعود، لاہور)

موضوعات:



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…