آدھی رات کے وقت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک عورت کی آواز سنی جو پردہ کے نیچے سے پکار رہی تھی۔ ’’کیا شراب نوشی کی کوئی صورت ہے؟ یا نصر بن حجاج کے پاس جانے کی کوئی سبیل ہے؟ ایسا نوجوان جس کی جوانی بھرپور ہے، دبلا پتلا ہے، چہرہ ستواں ہے اور ضدی جھگڑالو نہیں ہے‘‘۔
(یہ سنتے ہی) آپ رضی اللہ عنہ کے چہرہ پر غصہ کے آثار نمایاں ہو گئے، فرمایا کہ اس وقت میرے ساتھ تو کوئی آدمی نہیں ہے جس کو یہ عورتیں پکارتی ہوں (حکم دیا کہ) نصر بن حجاج کو میرے سامنے حاضر کرو۔ جب نصر بن حجاج حاضر ہوا تو آپ نے اس کے بال کٹوا دیئے، پس اس کے دونوں رخسار چاند کے ٹکڑے معلوم ہونے لگے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ اس کے سر پر عمامہ باندھو، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا، پھر اس کو فرمایا کہ جس شہر میں میں ہوں اس میں تم سکونت اختیار نہ کرو۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو بصرہ بھیج دیا۔ اس عورت کو اپنی جان کا خطرہ ہوا جس کی باتیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سن لی تھیں۔ چنانچہ اس نے اشعار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو لکھ بھیجے۔ ’’امام وقت سے کہہ دو جن کے غضب سے ڈرا جاتا ہے کہ میرا شراب یا نصر بن حجاج سے کیا تعلق، میری مراد تو ابوحفص ہیں جن کی آنکھیں نشیلی اور نگاہ خمار آلود ہیں‘‘۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو پیغام بھیجا کہ مجھے تیری طرف سے خیر پہنچی ہے، میں نے اس آدمی کو تمہاری وجہ سے نہیں نکالا بلکہ مجھے اس کے متعلق یہ خبر ملی تھی کہ وہ عورتوں کے پاس آتا جاتا ہے جن پر مجھے اطمینان نہیں ہے۔