جبلتہ بن الایھم شاہِ غسان نے اپنے اسلام کا اعلان کیا اور شاہانہ انداز میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان سے ملے اور خوش آمدید کہا اور اس کو اونچا مقام دیا۔ ایک دن جبلتہ بن الایھم خانہ کعبہ کے طواف میں مشغول تھا کہ بنو فزارۃ کے ایک بدو نے ان کے تہبند کو رونددیا
یعنی اس کا پاؤں آ گیا جبلتہ نے اس کے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا۔ وہ بدو، امیرالمومنین کے پاس چلا گیا اور جبلتہ کے خلاف درخواست دائر کر دی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو بلایا اور اس کو سنجیدگی اور متانت سے کہا کہ یا تو اس کو راضی کر یا یا پھر وہ تجھے بھی اسی طرح مارے گا جس طرح تو نے اس کو مارا ہے۔ جبلتہ پر یہ بات گراں گزری اور غرور و نخوت میں کہنے لگا ’’کیا تم ایک بادشاہ اور ایک عام آدمی کے درمیان امتیاز نہیں کرتے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، نہیں۔ اسلام نے تم دونوں کو یکساں کر دیا ہے۔ جبلتہ نے کہا کہ پھر میں نصرانی ہوتا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ نے فرمایا کہ میں تمہاری گردن اڑاؤں گا۔ جب جبلتہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا استقلال اور دینی صلابت دیکھی تو کل تک کے لئے مہلت طلب کر کے راتوں رات اپنی قوم کو ساتھ لے کر قسطنطنیہ بھاگ گیا اور ہرقل کے پاس چلا گیا۔