مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندویؒ ، حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے متعلق لکھتے ہیں’’مجھے ایک مرتبہ اچانک اس کا اندازہ اور علم ہوا کہ مولانا کے گھر میں عام طو رپر کیسی گزرن اور کیا معیار زندگی ہے، رمضان مبارک میں غریب مسلمانوں کے یہاں بھی کچھ نہ کچھ اہتمام اور تکلف ہوتا ہے لیکن مولانا کے یہاں میں نے اتنا بھی اہتمام نہیں پایا،
واقعہ یہ پیش آیا کہ ایک رمضان المبارک میں، میں مولانا کی خدمت میں مقیم تھا،مولانا نے ایک روز فرمایا کہ آج کھانا میرے ساتھ کھائیے گا، افطار ہم لوگوں نے پنجاب کے رواج کے مطابق مسجدمیں پانی اور چھوہارے سے کیا، نماز مغرب کے بعد مولانا نوافل میں مشغول ہو گئے، فارغ ہوئے تو میری طرف دیکھ کر فرمایا کہ ’’مولوی صاحب! میں گھر میں اطلاع دینا بھول گیا کہ آج آپ ساتھ کھانا کھائیں گے‘‘ یہ کہہ کر مجھے اپنے ساتھ چلنے کااشارہ فرمایا ، کھانا آیا، صرف روٹی اور دال کاپیالہ تھا غالباً ماش کی تھی، اسی وقت دہی کا میری خاطر اضافہ کیا گیا، مولانا نے کھاتے ہوئے فرمایا کہ مولوی ابوالحسن صاحب! ہم سے تو یہ دال اچھی ہے کہ یہ جس مقصد کے لئے پیدا کی گئی تھی اس کو اس نے پورا کیا، مگر ہم نے اپنی زندگی کا مقصد پورا نہیں کیا، اس کے بعد بغیر کسی معذرت کے کھانے میں شریک ہو گئے اور ایسا معلوم ہوا کہ آج کوئی غیر معمولی بات نہ تھی۔