مولانا محمد تقی عثمانی صاحب حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ کے ساتھ اپنے ایک سفر کی سرگزشت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’کوئٹہ کے سفر میں احقر علامہ بنوریؒ کے ہمراہ تھا، یہاں مولانا کو کل چوبیس گھنٹے ٹھہرنا تھا جس میں تین مجلسوں سے خطاب کرنا تھا، ایک پریس کانفرنس تھی، گورنر بلوچستان سے ملاقات تھی اور عشاء کے بعد جامع مسجد میں ایک عظیم الشان جلسہ عام تھا۔
سارا دن مولانا کو ایک لمحہ بھی آرام نہ مل سکا اور رات کو جب ہم جلسہ سے فارغ ہو کر آئے تو بارہ بج چکے تھے، خود میں تھکن سے نڈھال ہو رہا تھا مولانا تو یقیناً مجھ سے زیادہ تھکے ہوئے ہوں گے۔ اس کے بعد میں سو گیا، رات کے آخری حصے میں آنکھ کھلی تو دیکھا مولانا کی چارپائی خالی ہے اور وہ قریب بچھے ہوئے ایک مصلٰے پر سجدے میں پڑے ہوئے سسکیاں لے رہے ہیں اللہ اکبر! ایسے سفر، اتنی تھکان اور مصروفیت میں بھی نالہ نیم شبی جاری تھا، یہ دیکھ کر مجھے تو ایک ندامت ہوئی کہ مولانا اپنے ضعف، علالت اور سفر کے باوجود بیدار ہیں اور ہم صحت مند اور نوعمری کے باوجود محو خواب اور دوسری طرف یہ اطمینان بھی ہوا کہ جس تحریک کے قائد کا رشتہ ایسے ہنگامہ دار و گیر میں بھی اپنے رب سے اتنا مستحکم ہو انشاء اللہ ناکام نہیں ہو گی۔ اس زمانے میں ملک بھر میں مولانا کا طوطی بول رہا تھا، اخبارات مولانا کی سرگرمیوں سے بھرے ہوئے ہوتے تھے اور ان کی تقریریں اور بیانات شہ سرخیوں سے شائع ہوتے تھے چنانچہ جب صبح ہوئی تو میزبانوں نے اخبارات کا ایک پلندہ لا کر مولانا کے سامنے رکھ دیا، یہ اخبارات مولانا کے سفر کوئٹہ کی خبروں، بیانات، تقریروں اور تصویروں سے بھرے ہوئے تھے۔ مولانا نے یہ اخبارات اٹھا کر ان پر ایک سرسری نظر ڈالی اور پھر فوراً ہی انہیں ایک طرف رکھ دیا
اس کے بعد جب کمرے میں کوئی نہ رہا تو احقر سے فرمایا ’’آج کل کوئی تحریک دین کے لئے چلائی جائے اس میں سب سے بڑا فتنہ نام و نمود کا فتنہ ہے۔ یہ فتنہ دینی تحریکوں کو تباہ کر ڈالتا ہے، مجھے بار بار یہ ڈر لگتا ہے کہ میں اس فتنے کا شکار نہ ہو جاؤں اور اس طرح یہ تحریک ڈوب نہ جائے، دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس فتنے سے ہم سب کی حفاظت فرمائے ورنہ ہمارے اعمال کو تو بے وزن بنا ہی دے گا، اس مقدس تحریک کو بھی لے کر بیٹھ جائے گا‘‘۔ یہ بات فرماتے ہوئے مولانا کے چہرے پر کسی تصنع یا تکلف کے آثار نہ تھے بلکہ دل کی گہرائیوں میں پیدا ہونے والی تشویش نمایاں تھی۔