خلافت عباسی، خلافت امویہ کی پوری پوری جانشین تھی، وہی دنیاداری کی رورح، وہی شخصی و موروثی سلطنت کا نظام و آئین اور وہی اس کی خرابیاں اور برے نتائج، وہی بیت المامل میں آزادانہ تصرف، وہی عیش و عشرت کی گرم بازاری، فرق اتنا تھا کہ امویوں کی سلطنت میں اور ان کے زمانہ کی سوسائٹی میں عربی روح کارفرما تھی، اس کی خرابیاں اور بے اعتدالیاں بھی اسی نوع کی تھیں،
عباسی سلطنت کے جسم میں عجمی روح داخل ہو گئی تھی، وہ عجمی قوموں اور تہذیب کے امراض و عیوب اپنے ساتھ لائی تھی، سلطنت کا رقبہ اتنا وسیع ہو گیا تھا کہ ہارون رشید نے ایک مرتبہ ابر کے ایک ٹکڑے کو دیکھ کر بڑے اطمینان سے کہا ’’جہاں تیرے جی میں آئے جا کر برس جا، تیری پیداوار کا خراج بہرحال میرے ہی پاس آئے گا‘‘۔دولت کی بہتات، مال کی بے وقعتی اور اس وقت کے تمدن و عیش کا اندازہ کرنے کے لئے تاریخ میں مامون کی شادی کا حال پڑھ لینا کافی ہے۔ مورخ لکھتا ہے ’’مامون مع خاندان شاہی دارکان دولت و کل فوج تمام افسران ملکی و خدام حسن بن سبھل (وزیراظعم جس کی لڑکی سے ماموں کی شادی ہو رہی تھی) کا مہمان ہوا، اور برابر انیس دنتک اس عظیم الشان بارات کی ایسی فیاضانہ حوصلہ سے مہمانداری کی گئی کہ ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی نے بھی چند روز کے لئے امیرانہ زندگی بسر کرلی، خاندان ہاشم و افسران فوج اور تمام عہدیداران سلطنت پر مشک و عنبر کی ہزاروں گولیاں نثار کی گئیں، جن پر کاغذ لپٹے ہوئے تھے اور ہر کاغذ پر نقد، غلام، لونڈی، املاک، خلعت اسپ حاضر، جاگیر وغیرہ کی ایک خاص تعداد لکھی ہوئی تھی، نثار کی عام لوٹ میں یہ فیاضانہ حکم تھا کہ جس کے حصہ میں جو گولی آئے اس میں جو کچھ لکھا ہو اسی وقت کیل المخزن سے دلا دیا جائے،
عام آدمیوں پر مشک و عنبر کی گولیاں اور درہم و دینار نثار کئے گئے، مامون کے لئے ایک نہایت مکلف فرش بچھایا گیا جو سونے کی تاروں سے بنایا گیا تھا اور گوہر یاقوت سے مرصع تھا، مامون جب اس پر جلوہ فرما ہوا تو بیش قیمت موتی، اس کے قدم پر نثار کئے گئے جو زرین فرش پر بکھر کر نہایت دل آویز سماں دکھاتے تھے۔