قیام پاکستان کے بعد حکومت نے ثقافتی صنعت سے وابستہ اداروں اور شخصیات کو بھارت میں ان کی غیر منقولہ جائیداد کا معاوضہ دینے کا فیصلہ کیا اور اس کے لئے ایک ایک بورڈ تشکیل دیا، قدرت اللہ شہاب اس بورڈ کے کارکن تھے، وہ لکھتے ہیں:’’ایک سرکس والے نے اپنے شیر کا معاوضہ مانگا تھا جسے وہ بھارت چھوڑ آیا تھا۔
بورڈ کے ممبروں نے اسے بتایا کہ ہم تو صرف غیر منقولہ جائیداد کامعاوضہ دیتے ہیں، شیر تو چلتا پھرتا متحرک درندہ ہے، اس کا معاوضہ دینا بورڈ کے اختیار میں نہیں، سرکس والے نے برجستہ جواب دیا ’’صاحب، شیر تو پنجرے میں بند رہتا ہے، پنجرہ تو غیر منقولہ ہے‘‘۔ایک صاحب پانچ تانگے بھارت چھوڑ آئے تھے اور ان کے عوض کسی فیکٹری کے طلب گار تھے، ان سے بھی یہی کہا گیا کہ تانگے غیر منقولہ جائیداد کے شمار میں نہیں آتے، اس لئے ہمارا بورڈ ان کا معاوضہ دینے کا اختیار نہیں رکھتا، اس پر درخواست دہندہ نے کہا ’’جناب، میرے تانگے غیر منقولہ تھے، کیونکہ میں ان میں گھوڑے نہیں جوتتا تھا‘‘۔ایک شخص محمد دین نے ضلع لدھیانہ کے کسی گاؤں میں آٹا پیسنے کی مشین لگائی ہوئی تھی، مشین خریدنے کی اصل رسید بھی درخواست کے ساتھ منسلک تھی، ہمارا بورڈ پانچ ہزار روپے سے زیادہ مالیت کے اثاثوں کا فیصلہ کرتا تھا، میں نے محمد دین سے کہا کہ اگر اس نے اپنی مشین کی قیمت دو ہزار دو سو کی جگہ پانچ ہزار روپے درج کی ہوتی تو اسے بورڈ ضرور معاوضہ دے دیتا کیونکہ اس کے کاغذات بڑے صاف اور سچے ہیں۔ اس نے جواب دیا ’’اچھا میری قیمت ہی دو ہزار دو سو ہے تو میں پانچ ہزار کیسے لکھ دیتا‘‘۔میں نے کہا ’’تم نے یہ مشین آٹھ برس پہلے خریدی تھی، اب تو قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔
اب تو اس کی قیمت پانچ ہزار سے اوپر ہو گی‘‘۔محمد دین ہنسا، صاحب! آپ بھی بڑے بھولے ہیں پرانی ہو کر تو مشین کی قیمت گھٹتی ہے بڑھا نہیں کرتی‘‘۔محمد دین کو ہم کچھ نہ دے سکے لیکن وہ ہمیں بہت کچھ دے گیا، صبح سے لے کر شام تک ہمارے بورڈ کو جھوٹ، فریب اور لالچ کے جس طوفان بدتمیزی کا سامنا کرنا پڑتا تھا اس ماحول میں محمد دین جیسے انسان، دیانت، امانت اور پاکیزگی کے وہ ستون تھے جن کی برکت سے قومیں زندہ رہتی ہیں اور پروان چڑھتی ہیں‘‘۔