اسلام آباد(آئی این پی)ماہرین امراض فشارخون و قلب نے کہاہے کہ 52 فیصد پاکستانی بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا ہیں جبکہ 42 فی صد مریض اس مرض بارے لا علم ہیں اس اس بیماری کو خاموش مرض بھی کہا جاتا ہے.محتاط اندازے کے مطابق 52 فیصد پاکستانی ہاپر ٹینشن یا بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا ہے
یہ اعداد و شماربدھ کو اسلام آباد پریس کلب میں پاکستان ہائپر ٹینشن لیگ اور ولسن فارماسیوٹیکلز کی جانب سے منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں بتائے گئے ۔ گزشتہ روز دنیا کے دیگرممالک کی طرح پاکستان میں بھی عالمی یوم فشارِ خون (بلڈ پریشر) منایا گیا، بین الاقوامی ماہر امراض دل ڈاکٹر شہباز سے قریشی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق 52 فیصد پاکستانی ہاپر ٹینشن یا بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا ہے جبکہ42فیصد پاکستانی لاعلم ہیں کہ وہ بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا ہے ا س لیے اس مرض کو خاموش بیماری بھی کہا جاتا ہے تقریبا سوا ایک ارب لوگ دنیا بھر میں اس مرض کا شکار ہیں جبکہ دنیا کے تقریبا20 فیصدلوگوں کو بلڈپریشر کاسامنا ہے یہ ایک عوامی مسئلہ ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے معالج سے رابطہ کیاولسن فارماسیوٹیکل کے یاسر غوری نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ کہ اس مرض کو کم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی
تاکہ معاشرے سے اس مرض کو چھٹکارہ دیا جسکے جائے بے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز کے شعبہ امراض دل کے سربراہ ڈاکٹراختر علی بندیشہ نے کہاکہ نیشنل ہیلتھ سروے کیمطابق18 فیصد نوجوان اور 33 فیصد 45 سال کی عمر کے لوگ اس مرض کا شکار ہیں ہر سال 18 فیصد لوگ اس مرض کاشکار ہورہے ہیں اور 40 سا ل کی عمر میں ہر تیسرا آدمی بلڈ پریشر کا مریض بن جاتا ہے ان کا کہنا تھا کہ ہائپر ٹینشن یا بلڈ پریشر کی وجوہات میں سادہ طرز زندگی سے چھٹکارا، تمباکو اور شراب نوشی ،نمک کا استعمال اور ورزش کا نہ کرنا ہے ، جبکہ ٹیومر، دل اور گردے کی بیماریاں بھی بلڈ پریشر کی وجوہات بن سکتی ہیں اس مرض سے بچنے کیلیے ضروری ہے کہ سادہ طرز زندگی اختیار کیا جائے ورزش کومعمول بنایا جائے متوازن خوارک استعمال کی جائینمک کے استعمال کو کم کیا جائے
تمباکو نوش اور شراب نوشی سے اجنتاب کیاجائے اور معالج کی رائے پر عمل کیاجائے ۔سربراہ شعبہ امراض قلب الائیڈ ہسپتال ڈاکٹر سعید نے کہا کہ ساری دنیا میں امراض قلب میں کمی آ رہی ہے لیکن پاکستان میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ ہم احتیاط نہیں کر رہے ہیں بیمار قومیں کبھی ترقی نہیں کرتی ہیں ۔ ڈاکٹر راجہ حسن مہدی (سربراہ شعبہ امراض قلب بینظیر بھٹو ہسپتال راولپنڈی پاکستان میں 12.5 فیصد افراد کا بی پی کنٹرول ہے یعنی آگاہی کی تعداد بہت کم ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے ہر شخص کو اسے کے بی پی شوگر اور کولیسٹرول کا نمبر لازمی معلوم ہونا چاہئے ۔