عبداللہ بنوہب کی موت کا بھی عجیب واقعہ ہے، اصحاب حدیث نے ان سے کہا کہ ہمیں جنت اور جہنم کے احوال سنا دیجئے ’’میں اس کی تاب نہیں لا سکتا‘‘ وہ سمجھے کہ شاید تواضعاً کہہ رہے ہیں، اصرار ہوا تو بیٹھ گئے، جہنم کے احوال کے متعلق احادیث شروع فرمائیں تو بیہوش ہو گئے، لوگوں نے چہرے پر پانی کی چھینٹیں ڈالیں لیکن فرق نہیں پڑا، کسی نے کہا ’’احوال جنت کی احادیث انہیں سنا دیجئے‘‘ وہ بھی پڑھ کر سنائی گئیں لیکن ہوش میں نہیں آئے اور بیہوشی کے عالم میں
بارہ دن گزر گئے، طبیب کو بلایا گیا تو اس نے معائنہ کر کے کہا ’’ان کا دل پھٹ گیا ہے‘‘ بیہوشی کی حالت میں بارہ دن گزارنے کے بعد بالآخر دل بے قرار کو قرار آ ہی گیا اور راہی ملک بقا ہوئے۔ امام ترمذی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ زرارہؒ نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی، جب امام اس آیت پر پہنچا ترجمہ ’’جس دن صور پھونکا جائے گا، پس وہ دن کافروں پر ایک سخت دن ہو گا، جس میں ذرا آسانی نہ ہو گی‘‘ وہ غش کھا کر گرے، جب ہم نے اٹھایا تو ان کی روح پرواز کر چکی تھی۔